پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ڈیجیٹل اسپیس خطرے میں ہے، نوجوانوں کو ہائی اسپیڈ انٹرنیٹ اور ڈیجیٹل رائٹس کے لیے جمہوری و پرامن مزاحمت کرنا ہوگی۔میڈیا سیل بلاول ہاوَس سے جاری کردہ پریس رلیز کے مطابق، سکھر ا?ئی بی اے یونیورسٹی میں کانووکیشن سے خطاب کرتے ہوئے پی پی پی چیئرمین نے کہا کہ میرے لیے یہ باعثِ فخر ہے کہ اِس جامعہ کا سنگ بنیاد میری والدہ شہید محترمہ بینظیر بھٹو نے اپنی دوسری حکومت کے دوران رکھا تھا۔ شہید محترمہ بینظیر بھٹو نے جو بیج بویا تھا وہ اب درخت بن گیا ہے، اور نہ صرف ملکی سطح بلکہ عالمی سطح پر بھی اپنی ایک ساکھ رکھتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس تعلیمی ادارے میں صرف ملک کے دیگر صوبوں سے نہیں، سری لنکا سمیت بیرونِ ممالک کے طلبہ بھی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔قوم کو درپیش چیلنجز کا مقابلہ کرنے اور ملک کا عالمی سطح پر تشخص بہتر بنانے میں طلبہ کے کردار کی اہمیت پر بات کرتے ہوئے، چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ طلبہ اپنے علم کو پاکستان کی ترقی کے لیے استعمال کریں، ا?ج ہمیں غربت، معاشی تفریق اور موسمیاتی تبدیلی جیسے چیلنجز کا سامنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کا کام ہے ہر چیز کو اپنے کنٹرول میں کرلینا۔ وہ ا?پ کو بھی کنٹرول کرنے کی کوشش کرے گی ا? ±پ کے اداروں کو بھی اور ا?پ کی چیزوں کو بھی۔ مگر نوجوانوں کو حکومت کو قابو میں رکھنا ہے نوجوانوں کو حکومت کی ان کوششوں کے ا?گے مزاحمت کرنی ہے، ا?پ کو اپنے حقوق حاصل کرنے ہیں۔پی پی پی چیئرمین کا کہنا تھا کہ ہر نسل نے اپنے حق کے لیے جدوجہد کی ہے۔ جمہوریت ہمیں تحفے میں نہیں ملی، اس کے لیے جدوجہد کی ہے۔ نوجوانوں نے اپنی تعلیم، اپنی ا?واز اور اپنے ہنر سے سے ایک کے بعد ایک سارے بندوقوں والوں کو شکست دلوائی، انگریز کے دور سے نوجوان صف اول میں رہے۔ انہوں نے کہا کہ اِس وقت ملک میں ڈیجٹیل اسپیس خطرے کی زد میں ہے، اور ا?ج کی نسل کو جمہوری اور پر امن انداز میں ’ڈیجیٹل رائٹس‘ کے لیے جدوجہد کرنا ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ اسلام آباد میں بیٹھے 60 سال کے بیوروکریٹس ڈجیٹل دور کے تقاضوں کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ پرانا نوکیا موبائل استعمال کرنے والوں کو نوجوانوں کے حق کا کیا پتا؟ اسلام آباد میں پرانے بزرگ کو واٹس ایپ، نیٹ فلکس، گیمنگ کا کیا پتا؟ ہمیں ان سے اپنا حق چھیننا ہے۔ انہوں نے پاکستانی نوجوانوں کی صلاحیتوں پر بات کرتے ہوئے نشاندھی کی کہ دنیا میں پہلا کمپیوٹر وائرس بنانے والے لاہور کے دو نوجوان تھے۔چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ یہ یقینی بنانا ہوگا کہ نہ صرف نئی نسل کو بہتر انٹرنیٹ ملے، ا?پ کی ڈیٹا پرائیوسی کا تحفظ یقینی بنایا جاسکے۔انہوں نے کہا کہ اس مقصد کے لیے وہ سندھ سمیت ملک بھرکے تعلیمی اداروں میں جائیں گے اور طلبہ سے پوچھیں گے کہ ڈیجیٹل رائٹس کے مجوزہ قانون میں کیا کیا شامل ہونا چاہیے۔ نوجوان اور طلبہ مجھے سوشل میڈیا پر ٹیگ کریں اور تجاویز دیں، ہم اس حوالے سے ا?گاہی پھیلائیں گے۔ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے موسمیاتی تبدیلیوں پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر موسمیاتی تبدیلی کی تباہ کاری نہ روکی گئی اور یہ سلسلہ جاری رہا تو پاکستان کو شدید نقصانات کا اندیشہ رہے گا۔ یہاں ایک کے بعد ایک سیلاب ا?تے رہیں گے، اور ہمارا انفرا اسٹرکچر بھی ختم ہوجائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایک تو اسلام ا?باد میں بیٹھے بابے، دوسرا پارلیمنٹ میں بزرگ سیاست دان، ان معاملات کو سمجھنے سے قاصر ہیں، ان کا مسئلہ بجٹ اور پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) کو بنانا ہے اور بس۔ انہوں نے مزید کہا کہ افسوس ہے کہ وفاقی بجٹ میں موسمیاتی تبدیلی کے خطرے سے نمٹنے کے لیے کوئی پلاننگ کا فقدان نظر آتا ہے۔ انہوں نے نشاندھی کرتے ہوئے کہا کہ دنیا میں 10 ممالک ماحولیاتی تبدیلی کے خطرے میں ہیں، ان میں پاکستان بھی شامل ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمیں ترقی یافتہ ممالک سے مطالبہ کرنا ہوگا کہ ا?ج دنیا جو کچھ بھگت رہی ہے، یہ سب ا?پ کی وجہ سے ہے۔ ان ممالک نے اپنی کیپٹلائزیشن پھیلانے اور صنعتوں کا جال بچھانے کی وجہ سے ا?ج دنیا کو موسمیاتی تبدیلی کے چیلنج سے نبرد ا?زما کردیا ہے۔ ان ممالک نے خود کو امیر بنالیا، لیکن باقی دنیا کے بارے میں کچھ نہیں سوچا، بلکہ سب کو مشکل میں ڈال دیا۔اب جب دنیا کے دیگر ممالک کی باری ا?ئی ہے، تو ’وہ‘ کہتے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے ا?پ تو یہ سب کچھ کر نہیں سکتے۔ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا مزید کہا تھا کہ اگر اندسٹریلائزیشن کرکے ان ممالک نے دولت کمائی ہے، تو اس دولت پر دوسروں کا بھی حق ہے۔ ہم یہ نہیں کہتے یہ دولت ہماری جیبوں میں ڈال دی جائے، لیکن ا?پ نے جو تباہی کی ہے، اسے ٹھیک کرنے کے لیے تو پیسے خرچ کریں۔ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ڈگری حاصل کرنے والے طلبہ کے لیے نیک تمناوَں کا اظہار کیا اور زور دیا کہ وہ تعلیم کی طاقت کو استعمال کرتے ہوئے ملکی ترقی میں اپنا حصہ ڈالنے کے لیے آگے بڑھیں۔ انہوں نے سندھ حکومت کی صحت اور تعلیم کے شعبے میں گرانقدر خدمات کو سراہتے ہوئے کہا کہ پاکستان بھر سے مریض سندھ کی اسپتالوں میں علاج معالجہ کیلئے نہیں آتے، بلکہ آئی بی اے جیسے اداروں میں حصول تعلیم کے لیے بھی طلبہ خیبرپختونخوا، بلوچستان اور پنجاب سمیت سری لنکا سے بھی یہاں آرہے ہیں۔تقریب کے دوران انہوں نے طلبہ میں میڈلز اور اسناد تقسیم کیں، جبکہ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ بھی ان کے ہمراہ تھے۔