پاکستان پیپلز پارٹی کے انسانی حقوق سیل کو اس بات پر شدید تشویش ہے کہ کچھ بے اصول عناصر بے خبر معصوم شہریوں کو جعلی توہینِ مذہب کے مقدمات میں پھنساتے ہیں تاکہ ان سے بھتہ وصول کیا جا سکے۔ رپورٹوں کے مطابق، مذہبی مواد کے ساتھ متنازعہ تصویریں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعے شہریوں کے موبائل کو ہیک کر کے اور دیگر غیر اخلاقی طریقوں سے پھیلائی جاتی ہیں، اور پھر اس کا بہانہ بنا کر قانون نافذ کرنے والے اداروں میں ان کے خلاف جھوٹے مقدمات درج کیے جاتے ہیں۔آج ایک بیان میں انسانی حقوق سیل کے صدر سابق سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ یہ معاملہ پہلی بار قومی انسانی حقوق کمیشن (NCHR) کی رپورٹ میں درج ہوا تھا جو اکتوبر 2023 سے اکتوبر 2024 تک کے دوران توہینِ مذہب کے مقدمات کی تحقیقات کا جائزہ لیتی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ نوجوان مردوں کو خفیہ ناموں کے پیچھے خواتین ایجنٹوں کے ذریعے پھنسایا جاتا تھا تاکہ انہیں غیر اخلاقی آن لائن سرگرمیوں میں مشغول کیا جا سکے اور پھر ان کے خلاف مقدمات درج کیے جائیں۔ رپورٹ نے صرف “قانونی عمل کے نظر اندازکرنے” کی نشاندہی نہیں کی بلکہ یہ بھی کہا کہ “گرفتاریاں اکثر نجی افراد کی طرف سے کی جاتی تھیں نہ کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے۔” گزشتہ سال بھی ایڈیشنل انسپکٹر جنرل پولیس، اسپیشل برانچ پنجاب کے شہر لاہور کی ایک خصوصی رپورٹ نے اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ ایک مشکوک گروہ ہے جو نوجوانوں کو پھنساتا ہے۔فرحت اللہ بابر نے کہا کہ FIA کے اعلیٰ افسران نے بھی ایسے گروہ کے وجود کو تسلیم کیا ہے۔ سائبر کرائم ونگ کی جانب سے ایک دفتر کا حکم تمام افسران میں تقسیم کیا گیا جس میں یہ معلوم ہوا کہ کچھ افسران نے “پروفیشنل خواتین کے ساتھ ساز باز کر کے معصوم شہریوں کو پھنسانے کے لیے ایک ناپاک جال ب ±نا ہے اور اس میں شامل افراد کے خلاف سخت کارروائی کی تنبیہ کی گئی۔ اس میں یہ بھی ہدایت کی گئی کہ “چھاپے نہیںمارے جائیں گے اور نہ ہی پیشگی منظوری کے بغیر کوئی FIR درج کی جائے گی”۔انہوں نے کہا کہ اس نیٹ ورک کی منظم نوعیت حال ہی میں اس وقت ظاہر ہوئی جب سوشل میڈیا پر جسٹس محمد اقبال کلہوڑو کے خلاف ایک نفرت انگیز مہم چلائی گئی، جب جج نے کچھ ملزمان کو جو ایسے جھوٹے مقدمات میں ملوث تھے، ضمانت دے دی۔سندھ بار کونسل نے پچھلے مہینے ایک قرارداد منظور کی جس میں جج کے خلاف مہم کی مذمت کی گئی اور ایف آئی اے کے اہلکاروں اور مجرمانہ نیٹ ورک کے درمیان مبینہ ساز باز کی شفاف اور غیرجانبدارانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا۔ قرارداد میں کہا گیا کہ کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں ہونا چاہئے، بشمول وہ گروہ جو ذاتی یا مالی فائدے کے لیے مذہبی جذبات کا استحصال کر رہے ہیں اور جھوٹی توہین رسالت کے الزامات کی شفاف، فوری اور غیرجانبدارانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا۔فرحت اللہ بابر نے تمام سیاسی جماعتوں، پارلیمنٹ، قانون نافذ کرنے والے اداروں، مذہبی علما، انسانی حقوق کے اداروں، بار اور میڈیا سے اپیل کی کہ وہ ان خطرناک رپورٹس کو سنجیدگی سے لیں اور انہیں نظر انداز نہ کریں۔ انہوں نے یاد دلایا کہ سینیٹ کی انسانی حقوق کمیٹی نے مارچ 2018 میں بھی اس حوالے سے کچھ سفارشات پیش کی تھیں جن کی سینیٹ نے توثیق کی تھی اور انہوں نے اس رپورٹ کے نفاذ کا بھی مطالبہ کیا۔ |