پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے دوٹوک موقف اختیار کرتے ہوئے وفاقی حکومت سے پرزور مطالبہ کیا ہے کہ وہ دریائے سندھ پر 6 نئے کینالوں کی تعمیر کے اپنے متنازعہ منصوبے سے فوری طور دستبردار ہوجائے، بصورت دیگر پیپلز پارٹی کے لیے وزیراعظم شہباز شریف کی حکومت کے ساتھ چلنا ممکن نہیں ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ اگر انہیں حکومت اور عوام کے درمیان کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا، تو وہ ہر بار عوام کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ میڈیا سیل بلاول ہاوَس سے جاری کردہ پریس رلیز کے مطابق، پی پی پی چیئرمین نے سندھ صوبہ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد میں منعقد عظیم الشان جلسہ عام سے اپنے خطاب میں جلسے میں بھرپور شرکت پر عوام کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ پیپلز پارٹی کی قیادت اور عوام کے درمیان اعتماد کا مضبوط رشتہ آج بھی قائم ہے، جو نسلوں پہ محیط ہے۔ انہوں نے گذشتہ روز این اے 213 پر ضمنی الیکشن میں پیپلز پارٹی کی نامزد امیدوار کو شاندار جیت سے ہمکنار کرنے پر عمرکوٹ کی عوام کا بھی شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بزرگ سیاستدان و سینیئر پارلیامینٹرین نواب یوسف تالپور مرحوم کے انتقال کی وجہ سے خالی ہونے والی سیٹ پر اپوزیشن مرحوم کی اہلیہ کو بلامقابلہ منتخب کراتے اور جمہوری روایات کی پاسداری کرتے، لیکن انہوں نے ایسا نہیں۔ انہوں نے کہا کہ این اے 213 کے ضمنی الیکشن میں 17 جماعتوں کو شکست دے کر عوام نے پیغام دیاہے کہ وہ آج بھی پیپلز پارٹی کے ساتھ کھڑے ہیں۔ انہوں نے نشاندھی کرتے ہوئے کہا کہ پی ایم ایل-این اور تحریک انصاف این اے 213 کے ضمنی الیکشن میں اتحادی تھیں، جنہوں نے دیگر 17 جماعتوں کے ساتھ مِل کر پیپلز پارٹی کے خلاف الیکشن لڑا۔ “میں عمرکوٹ کی عوام کا شکرگذار ہوں، آپ نے انہیں ؔ(اپوزیشن) کو تاریخی شکست دلوائی کہ وہ اب کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں ہیں۔ یہ سب ایک ہی نکتے ہر ڈٹے تھے کہ پی پی کو ہرانا ہے۔” چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ صوبوں کے درمیان پانی کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنانے کی جدوجہد انہیں ورثے میں ملی ہے۔ “مجھ سے پہلے شہید محترمہ بینظیر بھٹو نے بھی یہ جنگ لڑی تھی۔ اُس زمانے میں ہم اپوزیشن میں تھے۔ الیکشن جیتنے کے باوجود ہمیں اپوزیشن میں بٹھایا گیا تھا۔” انہوں نے مزید کہا کہ اُس وقت بھی متنازعہ آبی منصوبے کے خلاف جب شہید محترمہ بینظیر بھٹو آواز اٹھا رہی تھیں، تو حیدرآباد کے ساتھ ساتھ لاہور، ملتان، خیبرپختونخواہ اور کوئٹہ کے جیالے بھی قافلوں کی شکل میں باہر نکلے تھے، اور احتجاج کرکے حکومت کو مجبور کیا کہ وہ متنازعہ منصوبے سے دستبردار ہو۔ پی پی پی چیئرمین نے کہاکہ ان کی جماعت مخالفت برائے مخالفت میں یقین نہیں رکھتی اور وہ متنازعہ کینال منصوبہ کی اس لیے مخالفت کر رہی ہے کہ اُس سے وفاق کو خطرہ ہے۔ “عین اس وقت جب دہشت گرد تنظیمیں بلوچستان اور خیرپختونخوا میں حملے کررہی ہیں، اور پورے ملک میں دہشت گردی کی آگ لگی ہوئی ہے، انہوں نے ایک ایسا موضوع چھیڑ دیا ہے جس سے بھائی کو بھائی سے لڑنے کا خطرہ ہے اور وفاق کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے اور سب سے بڑھ کر ہمارے پیاسے مر جانے کا خطرہ ہے۔” انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ ملک کی ترقی ہو، ہم چاہتے ہیں کہ دہشت گردوں اور ان کے پس پردہ عالمی طاقتوں کو عبرتناک شکست ہو، چاروں صوبوں میں ترقی ہو، مہنگائی میں کمی ہو، روزگار کے مواقع میسر ہوں اور اس حد تک ہم ساتھ چلنے کے لیے تیار تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر آج شہباز شریف وزیراعظم ہیں تو انہیں سندھ کے عوام کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔ انہوں نے واضح کیا کہ پیپلز پارٹی کو وزارتیں نہیں چاہیئں، لیکن پیپلز پارٹی کینالز کے معاملے پر بھی پیچھے نہیں ہٹے گی۔ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ کسانوں کی بہبود اور زرعی شعبے کی ترقی ہمیشہ پیپلز پارٹی کی اولین ترجیحات میں شامل رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ قائدِ عوام شہید ذوالفقار علی بھٹو نے بے زمین کسانوں کو زمینوں کا مالک بنایا، اور شہید محترمہ بینظیر بھٹو نے ہر مشکل گھڑی میں کسانوں کی آواز بن کر اُن کا ساتھ دیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ صدر آصف علی زرادری کے سابقہ دورِ صدارت کے دوران اُن کی پالیسیوں نے کسان کو خوشحال بنادیا تھا اور پاکستان گندم برآمد کررہا تھا۔ پی پی پی چیئرمین نے مسلم لیگ (ن) اور اس کی وفاقی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے اُن کی پالیسیوں کو کسان دشمن اور زراعت دشمن قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت نے چاروں صوبوں کو روکا ہے کہ وہ کسانوں سے گندم خرید نہ کریں اور نہ ہی انہیں سبسڈی دیں۔ ” اس کے ساتھ ساتھ حکومت نے یہ طے کیا ہے کہ زرعی شعبے پر ٹیکسوں کی بھرمار کردی جائے، اس صورت میں سندھ اور پنجاب کے کسان کہاں جائیں گے۔” چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پانی کی پہلے ہی ملک میں قلت موجود ہے، اور ایسے حالات میں کینالز بنانے کے منصوبے کا پھر کیا مطلب ہے؟ حکومت کینالز منصوبہ روکے، ہم 50 سالہ پلان بتائیں گے کہ زراعت میں کیسے ترقی کرنی ہے۔ “میں کیوں نہیں چاہوں گا کہ تھرپارکر اور چولستان میں ترقی ہو، مگر دریائےب سندھ پر سودا نہیں کروں گا۔”انہوں نے کہا کہ جو لوگ سمجھتے ہیں کہ دھمکیوں سے پیپلزپارٹی کو ڈرایا جاسکتا ہے، تو وہ غلطی پر ہیں۔ “پیپلز پارٹی کبھی پیچھے نہیں ہٹی، ہم اپنے ذاتی اور سیاسی مفاد کے لیے نہیں نکلے اور نہ ہی کسی ساتھی کو جیل سے چھڑانے کے لیے نہیں نکلے، ہم تو دریائے سندھ اور وفاق کو بچانے کے لیے نکلے ہیں۔” چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے متنازع کینال منصوبے کے خلاف صوبائی اسمبلی میں قرارداد منظور کروائی ہے اور قومی اسمبلی میں آواز اٹھائی ہے، جبکہ صدر مملکت آصف علی زرداری بھی پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سےخطاب میں اس منصوبے کو مسترد کرچکے ہیں۔ انہوں نے نشاندھی کرتے ہوئَ کہا کہ ماضی میں جب عمران خان نے دو کینالز بنانے کی اجازت دی تواس وقت بھی پیپلزپارٹی نے اس کا ڈٹ کر مقابلہ کیا تھا اور اس کے بعد عوام کی طاقت سے عدم اعتماد کی تحریک لے کر آئے اور دو کینالز کی اجازت دینے والے کو گھر بھیج دیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان کی جانب سے دو کینالز کی تعمیر کے منصوبے کے خلاف بھی پیپلزپارٹی نے مزاحمت کی تھی، کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ پانی کی منصفانہ تقیسم ہماری قومی اور عالمی ذمے داری ہے۔ انہوں نے اپنے خطاب کے اختتام پر اعلان کیا کہ پیپلز پارٹی متنزعہ نہری منصوبہ کے خلاف 25 اپریل کو سکھر میں جلسہ کرے گی اور احتتجاج کرے گی۔ انہوں نے عوام کو اپیل کی کہ وہ بڑی تعداد میں شریک ہوکر دریائے سندھ کو بچانے کی جدوجہد کا حصہ بنیں۔