پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے قومی اسمبلی میں اپنے چیمبر میں میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آج کا اجلاس مرحوم نواب یوسف تالپور کی یاد میں تعزیتی اجلاس تھا۔ وہ نہ صرف پیپلز پارٹی بلکہ پورے ملک کے لیے ایک اثاثہ تھے۔ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے تمام سیاسی جماعتوں کا شکریہ ادا کیا جو مرحوم پیپلز پارٹی رہنما کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے موجود تھیں۔چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ صدر آصف علی زرداری نے گزشتہ روز پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں تاریخی خطاب کیا۔ یہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ہوا کہ کسی سویلین صدر نے آٹھویں مرتبہ پارلیمنٹ سے خطاب کیا۔ صدر زرداری کی قیادت، عوامی مسائل پر ان کی توجہ اور اتفاق رائے پر مبنی اصلاحات پر زور دینا عوام کی توقعات کی حقیقی عکاسی ہے۔ انہوں نے معیشت سے دہشت گردی، فلسطین سے کشمیر، زراعت سے ٹیکنالوجی تک تمام اہم مسائل کو اجاگر کیا۔ صدر زرداری بطور وفاق کی علامت، تمام منتخب اراکینِ پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے واحد نمائندہ ہیں۔اپنے خطاب میں صدر زرداری نے حکومت کی یکطرفہ پالیسیوں، بالخصوص دریائے سندھ سے نئے نہری منصوبے بنانے کے فیصلے پر واضح تحفظات کا اظہار کیا۔ مثبت انداز میں صدر زرداری نے اس مسئلے کو قومی اسمبلی اور موجودہ حکومت کے سامنے رکھا۔ اس مسئلے کی وجہ سے حکومت دباو ¿ میں ہے، اس لیے اس فیصلے پر نظرِ ثانی کرنی چاہیے۔وزیراعظم شہباز شریف کے ساتھ افطار ڈنر سے متعلق چیئرمین بلاول نے کہا کہ وہ وزیر اعظم کے مشکور ہیں کہ انہوں نے پیپلز پارٹی کے وفد کی میزبانی کی۔ چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ مہنگائی سب سے اہم مسئلہ تھا جس پر جماعتوں نے انتخاب لڑا، اور اب جب کہ کچھ معاشی اشاریے بہتر ہو رہے ہیں، پیپلز پارٹی وزیراعظم شہباز شریف کو مبارکباد دیتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پیپلز پارٹی نے اپنے تحفظات بھی پیش کیے، جن میں بلوچستان اور خیبر پختونخوا کی امن و امان کی صورتحال شامل تھی۔خیبر پختونخوا سے متعلق چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ کبھی کسی صوبائی حکومت کی اپنے عوام کے مسائل پر اتنی بے حسی نہیں دیکھی گئی۔ پاراچنار، بنوں، پشاور اور قبائلی علاقوں میں دہشت گردی کی آگ پھیل رہی ہے۔ انہوں نے وزیر اعظم سے درخواست کی کہ وہ صوبائی حکومت کو اس مسئلے کے حل کے لیے متحرک کریں کیونکہ وفاق خیبر پختونخوا کو موجودہ صوبائی حکومت کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ سکتا۔ بلوچستان میں نہ صرف امن و امان ایک سنگین مسئلہ ہے بلکہ موسمیاتی تبدیلی بھی خطرناک حد تک اثر انداز ہو رہی ہے۔ سیلاب کی تباہ کاریوں کے بعد بحالی کے کام کو تیز کرنا ضروری ہے۔سوالات کے جواب میں چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ میڈیا کی ذمہ داری ہے کہ وہ صرف سچ پھیلائے، اپوزیشن کا پروپیگنڈا نہیں۔ پیپلز پارٹی وہ پہلی جماعت ہے جس نے ہمیشہ صوبوں کے حقوق پر سمجھوتہ نہ کرنے کی بات کی۔ مرحوم نواب یوسف تالپور نے اپنی آخری تقریر میں بھی پانی کے مسئلے کو اجاگر کیا تھا، اور وزیر اعلیٰ سندھ، ان کے وزرائ اور صوبائی بیوروکریسی نے بھی ہر فورم پر یہ معاملہ اٹھایا۔ کچھ سیاسی جماعتیں اس قومی مسئلے کو اپنی سیاست کے لیے استعمال کر رہی ہیں اور اس واحد جماعت کو نشانہ بنا رہی ہیں جو ہمیشہ برابری کے اصول پر کاربند رہی ہے۔ایک اور سوال کے جواب میں چیئرمین بلاول نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ وزیراعظم پیپلز پارٹی کے ساتھ طے شدہ بنیادی نکات کی پاسداری کریں گے۔ وزیراعظم نے اپنی ٹیم کو ہمارے تحفظات دور کرنے کی ہدایت دی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پیپلز پارٹی قومی اسمبلی کی تیسری بڑی جماعت ہے۔ ہمارا اعتماد ابھی اس سطح تک نہیں پہنچا کہ ہم حکومت کے باقاعدہ اتحادی بن سکیں۔ تاہم، پیپلز پارٹی ملک کے مفاد میں سیاسی جماعتوں کے ساتھ کام کر رہی ہے۔پانی کے مسئلے سے متعلق سوال پر چیئرمین بلاول نے کہا کہ مشترکہ مفادات کونسل (CCI) ہی اس مسئلے کو حل کرنے کا درست فورم ہے۔ پیپلز پارٹی مسلسل CCI کا اجلاس بلانے کا مطالبہ کر رہی ہے۔ جہاں تک گرین پاکستان منصوبے اور زراعت میں سرمایہ کاری کا تعلق ہے، تو پیپلز پارٹی اس منصوبے کی مکمل حمایت کرتی ہے۔ ہم صرف کسانوں کے لیے وقتی ریلیف نہیں چاہتے، بلکہ انہیں خوشحال دیکھنا چاہتے ہیں۔ اجتماعی زراعت کے ذریعے ہم زرعی معیشت کو فروغ دے سکتے ہیں۔چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے قومی اسمبلی میں نواب یوسف تالپور کے انتقال پر اظہار تعزیت کرتے ہوئے ان کی سیاسی خدمات کو سراہا۔ انہوں نے کہا کہ نواب یوسف تالپور نہ صرف پیپلز پارٹی کے ایم این اے تھے بلکہ ان کے خاندان سے تین نسلوں پر مشتمل قریبی تعلقات تھے۔ وہ ایک حقیقت پسند سیاسی کارکن تھے، جنہوں نے اپنی جدوجہد کا آغاز طالب علم رہنما کے طور پر کیا اور نظریاتی سیاست سے وابستہ رہے۔نواب یوسف تالپور نے جمہوری تحریکوں، ایم آر ڈی سے اے آر ڈی تک، اور آمریت کے خلاف جدوجہد میں اہم کردار ادا کیا۔ جنرل ضیائ سے جنرل مشرف تک، آمروں کے مظالم کا سامنا کیا، مگر جمہوریت کے اصولوں سے پیچھے نہیں ہٹے۔ ان کی جدوجہد پیپلز پارٹی کے کارکنان کے لیے ایک سبق ہے کہ سیاست نظریے اور مقصد کے تحت ہونی چاہیے۔نواب یوسف تالپور 1970 کی دہائی میں سندھ اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور 1993 سے 2024 تک قومی اسمبلی کے رکن رہے۔ بطور وفاقی وزیر خوراک و زراعت، انہوں نے کسانوں کے حقوق اور زرعی ترقی کے لیے ہمیشہ آواز بلند کی۔ وہ ہمیشہ منصفانہ پانی کی تقسیم کے حامی رہے، اور آج جب پانی کی قلت ایک بڑا چیلنج بن چکی ہے، نواب یوسف تالپور کی کمی شدت سے محسوس کی جا رہی ہے۔ |