پاکستان پیپلزپارٹی کی پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس پارٹی کے
چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں قومی اسمبلی کے میٹنگ روم میں منعقد ہوا۔
اس اجلاس میں بی بی آصفہ بھٹو زرداری نے بھی شرکت کی۔ اجلاس کے بعد رکن قومی
اسمبلی اور پاکستان پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرینز کی سیکریٹری اطلاعات شازیہ مری نے
صحافیوں کو بریفنگ دی۔ اس اجلاس میں پارٹی کے قومی اسمبلی کے اراکین نے اپنی
آراءاور تحفظات سے پارٹی قیادت کو آگاہ کیا۔ صحافیوں کے سوالات کے جوابات دیتے
ہوئے شازیہ مری نے کہا کہ اراکین نے اپنے اپنے علاقوں کے مسائل سے آگاہ کیا۔ وفاقی
حکومت نے جو رویہ ہمارے اراکین کے ساتھ اختیار کیا ہوا ہے اس سے ہمارے اراکین کو
دشواریاں پیش آرہی ہیں کیونکہ اراکین عوام کو جوابدہ ہیں۔ زرعی طبقے کو ریلیف نہ
دینا گندم کی خریداری میں دشواریاں وغیرہ زیر بحث آئیں۔ ہم نے اپنے عوام کو جوابدہ
ہونا پڑتا ہے جب کسان کو کھاد میں ریلیف نہ ملے، ٹریکٹر پر ریلیف نہ ملے اور بجلی
کے مسائل بھی کوئی نہ سنے تو یہ سارے تحفظات درست ہیں۔ بجٹ کی تیاری میں ہماری
جماعت کا کوئی ان پٹ نہیں لیا گیا۔ وفاقی پی ایس ڈی پی میں بھی ہماری رائے نہیں لی
گئی۔ ہم نے یہ کوشش کی تھی کہ یہ وقت نہ آئے اسی لئے ہماری جماعت کے سینئر اراکین
نے حکومت سے انگیج کیا لیکن اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا اور ہمیں اس کی توقع نہیں
تھی کہ ہماری بات نہیں سنی جائے گی۔ نیشنل اکنامک کونسل کا قیام بہت دیر بعد ہوا
جس کا اجلاس کل ہوا اور سندھ کے وزیراعلی نے اپنا کیس وہاں پیش کیا اسی طرح
بلوچستان میں بھی اپنا کیس پیش کیا۔ پی پی پی کے تحفظات پورے ملک کے عوام کے لئے
ہیں۔ ہم ایک سیاسی جماعت ہیں ہماری ایک آئیڈیالوجی اور منشور ہے اور ان کی روشنی
میں ہم اپنا ان پٹ دینا چاہ رہے تھے۔ تو کیا یہ حکومت چاہتی ہے کہ پیپلزپارٹی بھی
احتجاج کرے؟ کیا حکومت چاہتی ہے کہ ہم اپنی ناراضگی کا اظہار قومی اسمبلی کے فلور
پر کریں؟ اب یہ حکومت کو دیکھنا ہے کیونکہ وہ ایک ذمہ دار پوزیشن پہ ہے۔ ہمیں
شہباز شریف صاحب سے اس رویے کی امید نہیں تھی۔ اور اگر یہی رویہ رہا تو ہم اپنے
عوام کے پاس جائیں گے۔ ہماری کمٹمنٹ سولر انرجی اور زراعت کے ساتھ ہے، کسان کے
ساتھ ہے تو آپ ہی بتائیے کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ اس سوال پر کہ کیا پیپلزپارٹی
اپنی راہیں جدا کر رہی ہے شازیہ مری نے کہا کہ یہ سوال آپ حکومت سے پوچھیں ۔ بدھ
کے روز بجٹ سے پہلے اڈھائی بجے ہماری ایک اور میٹنگ ہو رہی ہے تو ہم حکومت کو پورا
موقع دے رہے ہیں۔ ہمیں اپنے حلقہ انتخاب، عوام اور اپنے منشور پر عملدرآمد کو بھی
دیکھنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی پارلیمنٹ کا حصہ نہیں بننے جا رہی اور پی
پی پی ملک میں معاشی اور سیاسی استحکام کے لئے حکومت کو باہر سے سپورٹ کر رہی ہے۔
آج کے اراکین کے تحفظات کے بعد چیئرمین پیپلزپارٹی کو کوئی فیصلہ کرنا پڑے گا۔
جنوبی پنجاب کے اراکین نے بھی اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کے متعلق چیئرمین کو
بتایا۔ چیئرمین صاحب اراکین کے تحفظات کا حل چاہتے ہیں۔وقت حکومت کے پاس ہے اور اب
یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ اس بڑی سیاسی جماعت کی سپورٹ کو برقرار رکھنا چاہتی ہے
تو ان کو چاہیے کہ وہ ان تحفظات کو دور کریں۔