پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین و پاکستان کے وزیرِ خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے قومی اسمبلی میں جمعرات کے روز خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم تمام سیاسی پارٹیاں مشترکہ طور پر حکومت چلا رہی ہیں اور یہ صورتحال اس وجہ سے پیدا ہوئی ہے کہ ملک کو سنگین بحرانوں کا سامنا ہے۔ جنگ یا ایمرجنسی کی صورت میں سیاسی پارٹیاں اپنے آپ کے اختلافات ایک طرف رکھ کر قومی مفاد میں کام کرتی ہیں۔ ہم ایک ایسی صورتحال سے دوچار ہیں جس میں ہر محاذ پر بحرانوں کا سامنا ہے۔ حکومت میں آنے سے قبل ہم نے جس صورتحال کا اندازہ کیا تھا اصل صورتحال اس سے بھی بہت زیادہ خراب ہے۔ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہو سکتی کہ اس وقت ملک کو بحرانوں کو سامنا ہے۔ ایک سلیکٹڈ شخص کی وجہ سے ہمارے سارے ادارے متنازعہ بنا دئیے گئے۔ عمران خان اور اس کی سابقہ حکومت نے جو نقصان آئین جمہوریت اور اداروں کو پہنچایا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ سابق وزیراعظم نے آئین کو توڑا اور جمہوریت پر حملہ کیا۔ سابق وزیراعظم، ڈپٹی اسپیکر اور صدر نے 3اپریل کی رات کے بعد 9 اور 10اپریل کی راتوں کے بعد آج تک آئین کی خلاف ورزیاں کی ہیں اور آئین پر چلنے سے انکاری ہے۔ قومی اسمبلی اور پارلیمنٹ آئین پر اس حملے سے کیسے صرف نظر کر سکتی ہے۔ ماضی میں بھی ہمارے آئین کو کاغذ کا ٹکڑا کہہ کر پھاڑا جاتا رہا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ 3، 9 اور 10اپریل سے لے کر آج تک آئین پر مستقل حملے کئے جا رہے ہیں۔ یہ پاکستان پیپلزپارٹی کا موقف ہے جسے ہم نے متحدہ حکومت کے سامنے رکھا ہے۔ اب ایوان کو ہر صورت میں ایک اعلیٰ سطحی کمیشن یا کمیٹی بنانی چاہیے تاکہ وہ آئین کی ان خلاف ورزیوں اور پنجاب میں کھیلے جانے والے کھیل کی تحقیقات کرے۔ ہمیں آئین پر اس حملے کو سنجیدگی سے لینا چاہیے اور ایک کمیشن بنا کر اس غیرآئینی اور غیرجمہوری حملے کی تحقیقات کرنی چاہئیں۔ جہاں تک 3اپریل کا سوال ہے سپریم کورٹ نے گذشتہ حکومت کے سارے فیصلوں کو غیرآئینی قرار دے دیا ہے۔ پاکستان کے عوام یہ توقع رکھتے ہیںکہ سابقہ حکومت کی جانب سے آئین کو توڑنے کا احتساب ہونا چاہیے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ جمہوریت اور پارلیمان کی بالادستی کو بحال کیا جائے تو ہمیں معاملے کی تہہ تک پہنچے کی تحقیقا ت کرنا پڑیں گے اور ان تحقیقات کی روشنی میں ہم آگے بڑھ سکتے ہیں چونکہ ہم نے اس حملے کو اب تک نظرانداز کیا ہے تو سابقہ وزیراعظم خود کو مقدس گائے سمجھ بیٹھا ہے اور قومی مفادات پر مستقل حملے کر رہا ہے۔ یہ سیاسی عدم استحکام ہماری معیشت کو بھی نقصان پہنچا رہا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ اسے کوئی ہاتھ نہیں لگا سکتا اور یہ بات بھی نظرانداز کر دی گئی تھی کہ گذشتہ حکومت بدترین دھاندلی والے انتخابات کے ذریعے وجود میں آئی تھی۔ اس کو چار سال تک ملک پر مسلط رکھا گیا اور اس نے پاکستان کی معیشت کو تباہ کر دیا۔ پاکستان کو دنیا میں تنہا کر دیا، اس نے آئین اور جمہوریت پر حملہ کیا اور صوبوں کے حقوق غصب کئے۔ اسی کی وجہ سے پانی اور بجلی کے بحران پیدا ہوئے۔ گندم کا بحران بھی پیدا ہوا۔ اب ہم نے پاکستان کو ان بحرانوں سے باہر نکالنا ہے اور نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے اور دنیا ان بحرانوں سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی۔ موجودہ بحرانوں اور اس سے قبل کوروناہ کی وجہ سے غذائی قلت کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے جس کا ہمیں سامنا ہے۔ ایسی صورتحال میں ہم سابق وزیراعظم کو یہ اجازت دے رہے ہیں کہ وہ جس پر حملہ کرنا چاہتا ہے کر رہا ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ پارلیمانی کمیشن ایک پہلا قدم ہوگا جس سے ہم 3اپریل کے بعد آئین پر کئے گئے حملوں کا تدارک کر سکیں گے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق گذشتہ چار سالوں میں کرپشن کے سارے ریکارڈ توڑ دئیے گئے۔ جو لوگ سابق وزیراعظم اور خاتون کے اردگرد تھے وہ چار سالوں کے دوران راتوں رات ارب پتی بن گئے۔ ہر وزارت میں بے قائدگیاں کی گئیں۔ سابقہ وزیراعظم سے پوچھنا پڑے گا کہ اس کی، خاتون اول کی اور اس کی دوست کی جائیدادوں میں کیسے اتنااضافہ ہوگیا؟ سابقہ وزیراعظم سارے اداروں اور عدلیہ پر حملہ کر رہا ہے اور اپنی سیاست کی وجہ سے وہ پاکستان کو عالمی سطح پر نقصان پہنچا رہا ہے۔ ہمیں اس کو روکنا ہوگا اور اس کے لئے پارلیمنٹ اور عدالتوں کو اپنا کردار ادا کرنا پڑے گا۔ جب ہم حزب اختلاف میں تھے تو ہم نے اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام کیا۔ ہم اپنے اتحادیوں کو کہتے رہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی انتہائی پوزیشن پر نہیں جانا چاہتی اور پارلیمان کے اندر رہ کر فتحیاب ہو سکتی ہے۔ ہم نے نہ تو دھرنا دیا اور نہ ہی کسی ادارے پر حملہ کیا ، ہم نے جمہوری طریقہ اختیار کیا اور اس نااہل وزیراعظم کو گھر بھیجا۔ سابق وزیراعظم اب چاہتا ہے کہ یا تو فوری طور انتخابات ہو جائیں ورنہ وہ کسی تیسری قوت کے لئے راستہ ہموار کرنا چاہتا ہے۔ یہ کوئی نئی حکمت عملی نہیں، عدام اعتماد سے ایک رات قبل مجھے گذشتہ حکومت کے ایک وزیر کی طرف سے دھمکی ملی تھی کہ تا تو فوری انتخابات پر تیار ہو جاﺅ ورنہ ملک میں مارشل لاءلگ جائے گا۔ یہ دھمکی ایک وفاقی وزیر کے توسط سے دی گئی تھی۔ ان کی یہ حکمت عملی ناکام ہوگئی اور عدم اعتماد کامیاب ہوگئی۔ ہمارے وہ ادارے جو ماضی میں متنازعہ رہے ہیں جیسا کہ عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ انہوں نے بھی آئینی حدود میں رہ کر کام کیا۔ یہ جمہوریت کی فتح تھی۔ عمران خان اور پی ٹی آئی کی ابھی بھی یہی حکمت عملی ہے کہ وہ انتخاباتی اصلاحات کے بغیر انتخابات چاہتے ہیں اور جمہوری اداروں کو کمزور کرنا چاہتے ہیں۔ ہمیں عمران خان کی سازش کو ناکام بنانے کے لئے سخت محنت کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کی پالیسی پہلے اصلاحات پھر انتخابات ہیں۔ ہم ایک جمہوری قوت ہیں اور آزادانہ اور منصفانہ انتخابات چاہتے ہیں۔ ہمارا پہلے بھی مطالبہ تھا اور اب بھی یہی مطالبہ ہے۔ ہم نے یہی موقف عدالت اور پاکستان کے عوام کے سامنے رکھا ہے۔ ہمیں فوری طور پر گذشتہ حکومت کے انتخابی بل مسترد کرنا ہوں گے جن کی وجہ سے الیکشن کمیشن آف پاکستان پر قدغنیں لگائی تھیں اور آرٹی ایس پلس یعنی الیکٹرانک ووٹنگ مشین متعارف کرائی گئی تھی۔ ہمیں انتخاباتی اصلاحات کے لئے سول سوسائٹی، فافن اور اسی قسم کے دوسرے اداروں کے ساتھ ساتھ سیاسی پارٹیوں سے مشاورت کرنا پڑے گی تاکہ 2018ءوالا کھیل کھیلا گیا تھا وہ دوبارہ نہ کھیلا جائے۔ ہم پہلے ہی اس بات پر اتفاق کر چکے ہیں کہ شہید محترمہ بینظیر بھٹو اور نواز شریف کے درمیان جو میثاق جمہوریت ہوا تھا اس کے باقی ماندہ نکات پر عملدرآمد ہو۔ ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ آئندہ انتخابات سے قبل ان نکات پر عملدرآمد ہو جائے۔ ہم ایک نئے میثاق جمہوریت پر کام کر رہے ہیں۔ ہمیں ضرورت اس بات کی ہے کہ ایک ایسے بنیادی ضابطہ اخلاق بنائیں جس پر تمام سیاسی پارٹیاں متفق ہوں۔ ہم چاہتے ہیں کہ تمام ادارے غیرمتنازعہ ہوں اور وہ اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام کریں۔ اگر اس بنیادی ضابطہ اخلاق پر آئندہ انتخابات سے پہلے اتفاق نہیں ہوتا تو ملک میں تقسیم بڑھ جائے گی اور آئندہ انتخابات خونی ہو سکتے ہیں۔ سب کو کھیل کے اصولوں پر عمل کرنا ہوگا۔ ہمیں ایک بنیادی ضابطہ اخلاق پر اتفاق کرنا ہوگا تاکہ ملک کو چلایا جا سکے۔