چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے سپریم کورٹ میںقائدعوام شہید ذوالفقار علی بھٹو ریفرنس کی سماعت میں شرکت کی، ان کی خالہ صنم بھٹو اور بہن آصفہ بھٹو زرداری بھی ن کے ساتھ تھی۔ سپریم کورٹ کی عمارت میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ہمیں امید ہے کہ پیپلزپارٹی کو انصاف ملے گا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے پاس تاریخ کو درست کرنے کانے کا موقع ہے۔ شہید ذوالفقار علی بھٹو کے کیس کی مثال کسی بھی کسی دوسرے کیس میں کبھی نہیں دی گئی۔ جس طرح سے اس کیس کا فیصلہ ایک ڈکٹیٹر کی ایماءپر کیا گیااس طریقے کو بار بار دہرایا گیا۔ ہمارے پاس یہ موقع ہے کہ ہم اپنے مستقبل کی سمت بھی درست کر لیں اور یہ دروازہ ہمیشہ کے لئے بند کر دیں۔ ہمیں انصاف ملنے کی امید ہے اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور دیگر ججوں سے امید ہے کہ وہ قانون کے مطابق فیصلہ دیں گے۔ صحافیوں کے سوالات کے جوابات دیتے ہوئےے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ہم چاہتے تھے کہ اس کیس کی سماعت جاری رہے بجائے اس کے اس کو انتخابات کے بعد تک ملتوی کر دیا جائے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ اس کیس کا فیصلہ انتخابات کے بعد ہو جائے گا۔ انتخابات 8فروری کو ہوں گے اور جیسا کہ انہوں نے پہلے کہا ہے کہ چاہے اقوام متحدہ کی قرارداد آجائے انتخابات 8فروری کو ہی ہوں گے۔ پاکستان پیپلزپارٹی نے حال ہی میں کراچی اور اسلام آباد کے بلدیاتی انتخابات جیتے ہیں اس وقت جب پی ٹی آئی اقتدار میں تھی تو پی پی پی نے عمران خان اور پی ٹی آئی کو کراچی اور ملتان کے ضمنی انتخابات میں شکست دی تھی۔ ہم نے پی ایم ایل(ن) کو بھی کراچی کے ضمنی انتخابات میں شکست دی تھی۔ اب یہ پہلی مرتبہ ہوگا کہ پیپلزپارٹی نہ صرف بلدیاتی حکومت میں ہوگی بلکہ صوبائی اور وفاقی حکومت میں بھی ہوگی۔ اس طرح ہم کراچی میں زیادہ بہتر طور پر کام کر سکیں گے۔ ہم ہر سیاسی پارٹی کے خلاف انتخابات لڑ رہے ہیں اور ہم وہ واحد پارٹی ہیں جس نے ایک ایسا دس نکاتی معاشی ایجنڈا پیش کیا ہے جو غربت، مہنگائی اور بیروزگاری کا مقابلہ کر سکتا ہے۔ ایک اور سوال کا جواب دیتے ہوئے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ “بلا” کبھی بھی انتخابی نشان نہیں تھا اور اسے عمران خان کی غلط طور پر حمایت کرنے کے لئے انتخابی نشان بنایا گیا۔ یہ نشان پی ٹی آئی کو دیا گیا کیونکہ پاکستانی عوام کی کرکٹ میں دلچسپی بہت زیادہ ہے۔ یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ہمارا انتخابی نشان “تلوار” ہم سے چھینی گئی اور اس وقت سے اب تک ہم “تیر” کے نشان پر انتخابات لڑ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان کا جیل میں ہونے کا تعلق انتخابات سے نہیں۔ اگر وہ بے گناہ ہے تو اسے رہا ہونا چاہیے اور اگر اس نے کوئی جرم کیا ہے تو اسے جیل میں ہونا چاہیے۔ جب عمران خان ہمارے خلاف جھوٹے مقدمے بناتا تھا تو کہتاتھا کہ ادارے آزاد ہیں اور ہم اداروں سے رجوع کریں۔ عمران خان نے پاکستان میں جو سیاست کی اب وہ وہی بھگت رہے ہیں۔ ہمیں ایک ایسا ماحول بنانا چاہیے جہاں سیاست کر سکیں۔ عمران خان کو پہلے معافی مانگنی چاہیے اور پھر ہم وہ ماحول پیدا کر سکتے ہیں۔ ہم نہیں سمجھتے کہ ہمارا عدالتی نظام اتنا شفاف ہے کہ سزائے موت دی جا سکے۔ پیپلزپارٹی کا اصولی اور نظریاتی موقف سزائے موت کے خلاف ہے لیکن عمران خان کہتا تھا کہ اگر 200 لوگوں کو سرعام پھانسی دے دی جائے تو نظام ٹھیک ہو جائے گا۔ عمران کو اپنی سوچ میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ اگر یہ تاثر ہے کہ کسی سیاسی پارٹی کے ساتھ جو ہورہا ہے وہ پہلے کبھی نہیں ہوا تو یہ تاثر غلط ہے۔ ماضی میں اس سے زیادہ سختیاں ہوتی رہی ہیں۔ عمران خان مفاہمت کی ہر کوشش کو سیاسی پارٹیوں کے درمیان مک مکا کہتا تھا۔ اس وقت نامزدگی فارم مسترد ہونے پر بلا جواز لوگوں کو اغوا کیا جا رہا ہے۔ 1988ءسے لے کر اب تک انتخاب میں اوسطاً اتنے ہی نامزدگی فارم مسترد ہوتے آئے ہیں۔ سب سے زیادہ نامزدگی فارم 2013ءمیں مسترد ہوئے تھے جب عمران خان کو لانچ کیا گیا تھا۔ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ہم سیاست، معیشت اور معاشرے میں بہتری لانا چاہتے ہیں اور اس کے لئے ہمیں اکٹھے ہو کر کام کرنا ہوگا۔ ہر اسٹیک ہولڈر کو اپنی غلطیوں کی نشاندہی خود کرنی ہوگی۔ خان چاہتا ہے کہ میدان میں صرف وہی رہے اور کوئی دوسرا میدان میں نہ رہے۔ وہ جمہوریت نہیں چاہتا بلکہ ایک فاشسٹ ریاست قائم کرنا چاہتا ہے۔ تمام سیاسی پارٹیوں کو تاریخ سے سیکھنا چاہیے تاکہ آنے والی نسلوں کا مستقبل بہتر ہو۔ لیول پلئینگ فیلڈ میں بہتری کا موقع موجود ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی عوام پر یقین رکھتی ہے اور عوام ہی کی طرف دیکھتی ہے۔