چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے شہید ذوالفقار علی بھٹو انسٹی ٹیوٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی “چنو نئی سوچ کو” کے موضوع پر سوال و جواب کے ایک سیشن میں شرکت کی اور یونیورسٹی کی انتظامیہ اور طلباءکا شکریہ ادا کیا۔ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پارٹی نے ایک تفصیلی منشور دیا اور اس کے ساتھ ایک دس نکاتی عوامی معاشی معاہدہ بھی پیش کیا۔ پیپلزپارٹی عوام کو درپیش مسائل سے نمٹنا چاہتی ہے جس میں موسمیات تبدیلی کا مسئلہ بھی شامل ہے۔ پارٹی نے موسمیاتی تبدیلی کے متعلق ماہرین سے مشورہ کیا ہے۔ دنیا میںقطب شمالی اور قطب جنوب کے بعد ہمالیہ کے دامن میں سب سے زیادہ برف موجود ہے۔ اب سے پہلے دنیا کو صرف برفانی ریچھ پینگوئن کے متعلق خطرات لاحق تھے اور کسی کو بھی 25کروڑ انسانوں کا خیال نہیں آیا تھا جو برف کے اس ذخیرے کے نیچے رہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی برادری کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ پاکستان بنیادی تبدیلی کے خطرات سے دوچار ہونے والا فرنٹ لائن کا ملک ہے جبکہ ہم فضا میں کاربن منتقل کرنے میں ہمارا صرف ایک فیصد حصہ ہے۔ اس مسئلے کا حل ہم اکیلے نہیں نکال سکتے اور اس کے لئے باقی دنیا سے مل کر مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان کو معاشی بحران بھی درپیش ہے اور اشیائے ضروریا ت کی قیمتیں بے تحاشہ بڑھ گئی ہیں جبکہ تنخواہوں میں ان کے حساب سے اضافہ نہیں ہوا۔ اب ہم نے اشرافیہ دوست پالیسی کی بجائے عوام دوست پالیسیاں اپنانی ہوں گی۔ وہ 17وزارتیں ہمیں تحلیل کرنا ہوں گی جو ابھی بھی وفاقی حکومت کے تحت ہیں۔ ان وزارتوں کی تحلیل سے 300ارب روپے بچائے جا سکتے ہیں اور انہیں عوام پر خرچ کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح اشرافیہ کو 1500ارب روپے کی سبسیڈی ہر سال دی جاتی ہے لیکن اب اس سبسیڈی کا رخ عوام کی طرف موڑنا ہوگا۔ شہید ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں ترقیاتی اخراجات جی ڈی پی کا 12فیصد تھا جبکہ وہ اب سکڑ کر صرف 2فیصد رہ گیا ہے۔ ہم ملک میں ترقی کے ماڈل پر نظرثانی کرنا چاہتے ہیں۔ ہم ملک اور عوام کو بچانے کے لئے موسمیاتی تبدیلی کا مقابلہ کرنے والا معاشی فریم ڈھانچہ بنانا چاہتے ہیں۔ ہمیں اس چیلنج کا سامنا ہر صورت کرنا پڑے گا۔ ہمیں اپنا نہری نظام، مواصلاتی نظام، زراعت اور انرجی انفراسٹرکچر میں بہتری لانی ہوگی۔ ہم اگر ان سیکٹر میں سرمایہ کاری کریں تو ہم نہ صرف یہ کہ موسمیاتی تبدیلی سے نمٹ سکتے ہیں بلکہ عوام کے لئے ملک بھر میں ملازمتوں کے مواقع بھی پیدا کر سکتے ہیں۔ یہ مشکل فیصلے ہیں جو ہم نے لینے ہیں ۔ اسلام آباد میں بیٹھے ہوئے بیوروکریٹس کی ذہنیت یہ ہے کہ وہ نہ خود کام کرنا چاہتے ہیں اور نہ کسی کو کام کرنے دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ اشرافیہ کی لابیز بھی ہیں جن کی طرف سے سخت ردعمل کی توقع ہے تاہم چونکہ پیپلزپارٹی کی حکومت یہ رقم بینظیر مزدور کارڈ، بینظیر کسان کارڈ، بینظیر یوتھ کارڈ، بی آئی ایس پی اور سولر انرجی پارکس جیسے منصوبوں پر خرچ کر رہی ہے تو اشرافیہ اور بیوروکریسی کی رکاوٹ کی اہمیت نہیں رہے گی۔ طلباءکی جانب سے کئے گئے سوالات کے جواب دیتے ہوئے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ گلگت بلتستان کے دوروں کے دوران ان سے شہید محترمہ بینظیر بھٹو کی کتاب اور موسمیاتی تبدیلی کے متعلق سب سے زیادہ پوچھے جاتے تھے۔ گلگت بلتستان کے لوگوں کے لئے اور پورے ملک کے لئے بھی موسمیاتی تبدیلی بہت اہم موضوع ہے۔ حالیہ سیلاب کے دوران ایک تہائی ملک پانی کے اندر ڈوب گیا تھا۔ لاہور میں موسم ایسا ہے کہ سانس لینا مشکل ہوجاتی ہے۔ اس سیلاب سے قبل طویل عرصے تک خشک سالی رہی اور کے پی اور بلوچستان میں آگ بھی لگ گئی تھی۔ پی پی پی ترقیاتی منصوبہ بندی میں روایتی اسلوب کو ختم کرنا چاہتی ہے۔ پی پی پی چاہتی ہے کہ پبلک پرائیوی ©ٹ پارٹنر شپ کے ذریعے پاکستان کے ہر ضلعے میں گرین انرجی پارکس بنائے۔چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پارٹی کی جانب سے 300یونٹ بجلی مفت مہیا کرنے کی پالیسی پر تنقید کی جا رہی ہے لیکن پارٹی چاہتی ہے کہ بجائے بڑی صنعتوں کے عوام کو براہ راست ریلیف مہیا کیا جائے۔ ایک اور سوال کے جواب میں چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پیپلزپارٹی کا دس نکاتی ایجنڈا پارٹی کے بنیادی فلسفے “روٹی، کپڑا اور مکان” کے عین مطابق ہے تاہم پارٹی کے منشور پر اس وقت تک عمل نہیں ہوسکتا جب تک کہ نئی سوچ کو نہ اپنایا جائے۔ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ نفرت اور تقسیم کی سیاست نے پورے معاشرے کو تقسیم کر دیا ہے اور معاشی اور جمہوری اقدار کو مفلوج کر دیا ہے۔ اگر سیاسی پارٹیاں ذاتی عناد کی سیاست کرتی رہیں تو ملک ترقی نہیں کر سکتا۔ اس وقت ہمارا معاشی بحران تاریخ کا سب سے بڑا بحران ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ دہشتگردی بھی ایک مرتبہ پھر سر اٹھا رہی ہے لیکن یہ انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ سیاسی پار ©ٹیاں ابھی تک تقسیم اور نفرت کی سیاست کر رہی ہیں۔پارٹی چاہتی ہے کہ روایتی سیاست کو ہمیشہ کے لئے دفن کردیں۔ پیپلزپارٹی کے دور میں کبھی بھی کوئی سیاسی قیدی نہیں رہا اور نہ آئندہ رہے گا۔ اور نہ کبھی میڈیا پر کبھی قدغن لگائی جائے گی۔ اختلاف رائے کا یہ مقصد نہیں کہ ہم ذاتی دشمنیاں نکالتے پھریں۔ ایک اور سوال کا جواب دیتے ہوئے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پارٹی عوام کی مالی مشکلات سے نمٹنے کے لئے غریبی ختم کرنے کا ایک منصوبہ بھی رکھتی ہے جس کے ساتھ ساتھ بینظیر مزدور کارڈ بینظیر کسان کارڈ کو بڑی سطح پر متعارف کرانا چاہتی ہے تاکہ لوگوں کو سماجی اور معاشی تحفظ فراہم کیا جا سکے۔ ایک اور سوال کا جواب دیتے ہوئے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ یہ بھی افسوسناک امر ہے کہ ملک کے حکمران عوام کے مسائل کے بارے میں سنجیدہ نہیں ہیں۔ اگر کوئی دوسرا ملک ہوتا تو وہ معاشی صورتحال بہتر کرنے کو فوقیت دیتا ۔ عمران خان اور اتحادی حکومت کی معاشی ٹیموں نے ملک کی معیشت کے ساتھ کھلواڑ کیا اور دونو ں مالی مشکلات پر قابو پانے میں ناکام ہوگئیں۔ جب عمران خان نے دیکھا کہ وہ عدم اعتماد کو ناکام نہیں کر سکتا تو اس نے عوام کی ہمدردیاں لینے کے لئے پٹرول کی قیمت کم کر دی۔ اس کا بوجھ عمران خان شریف خاندان یا اسحاق ڈار نے نہیں بلکہ عوام نے اٹھایا۔ پیپلزپارٹی اتحادی حکومت میں اس امید پر شامل ہوئی تھی کہ وہ سنجیدگی سے عوام کے مسائل کو حل کرنے کے بارے میں اقدامات کرے گی۔ ملک کو ڈیفالٹ کا خطرہ، سیلاب اور ضمنی انتخابات درپیش تھے تو حکومت نے فیصلہ کیا کہ وہ تین مہینوں تک آئی ایم ایف ڈیل پر عملدرآمد نہیں کریں گے اور اس طرح اتحادی حکومت کی معاشی ٹیم نے بھی وہی فحش غلطی کی جو عمران خان نے کی تھی اور ان غلطیوں کا خمیازہ ملک کے عوام بھگت رہے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ عوام قربانیاں دینا اور سمجھوتے کو چھوڑ دیں اور اب قربانیاں وفاقی حکومت اور اشرافیہ کو دینا پڑیں گی۔ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ اگر حکومت کی نیت درست ہو تو بین الاقوامی اداروں سے کی گئی ڈیل پسماندہ طبقات کے حق میں ہو سکتی ہیں۔ ایک اور بی ایس پی کے سوال کے جواب میں چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ یہ پروگرام سماجی تحفظ کا پہلا پروگرام ہے جسے مصر سے لے کر فلپائن تک ایک معیار مانا جاتا ہے۔ اس سے حکومت نہ صرف غریب ترین طبقات کی مالی مدد کرتی ہے بلکہ عوام کو بااختیار بناتی ہے۔ شہید محترمہ بینظیر بھٹو کا فلسفہ تھا کہ خواتین اس وقت تک بااختیار نہیں ہو سکتیں جب تک وہ مالی طور پر بااختیار نہ ہوں۔ اس سے ہماری خواتین بھکاری نہیں بنتیں بلکہ بااختیار بنتی ہیں۔ اس پروگرام کے ذریعے وہ اور ان کے بچے تعلیم حاصل کر سکتے تھے ۔ بی آئی ایس پی پروگرام میں اور بھی بہت کچھ تھا جیسا کہ وسیلہ حق، وسیلہ روزگار، وسیلہ قالین اور وسیلہ صحت تاہم ہمارے بعد آنے والی حکومتوں نے بی آئی ایس پی کے تحت یہ سارے پروگرام شروع نہیں کئے۔ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پیپلزپارٹی نے اپنی کوششوں سے سندھ حکومت کے تحت 20لاکھ گھر سیلاب زدگان کے لئے تعمیر کرنے کا انقلابی اقدام اٹھایا۔ پروگرام دنیا کا سب سے بڑا پروگرام ہے۔ اس سے نہ صرف لوگوں کو چھت مہیا کی جا رہی ہے بلکہ یہ جائیداد کی منتقلی کا سب سے بڑا منصوبہ ہے جس کی ملکیت خواتین کو دی جا رہی ہے۔ ایک اور سوال کا جواب دے ہوئے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ شہید ذوالفقار علی بھٹو نے اشرافیہ کی جانب سے دباﺅ سے نمٹنے کے لئے ایک اور صحیح طریقہ اپنایا جس کی وجہ سے انہیں پھانسی دے دی گئی۔ شہید ذوالفقار علی بھٹو نے امیروں سے زمین لے کر غریبوں کو دی تھی اور اس پالیسی کا ردعمل آنا تھا۔ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ وہ جو پیسے سبسیڈیز اور وزارتوں سے بچائیں گے ان میں میٹرو یا کسی اور جگہ خرچ کر سکتے ہیں لیکن اگر وہ ایسا کریں گے تو اس پر مذاحمت ہو سکتی ہے لیکن چونکہ یہ پیسے براہ راست عوام کو دئیے جائیں گے تو عوام پیپلزپارٹی کی حکومت کے ساتھ کھڑے ہوں گے اور عوام کی مدد سے اشرافیہ کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں اقلیتوں کے بارے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ہمارے تفصیلی منشور میں اقلیتوں کے بارے میں تفصیل سے منصوبے بیان کئے گئے ہیں۔ ماضی میں بھی اقلیتوں اور پسماندہ طبقات کے لئے پیپلزپارٹی نے قانون سازی کی ہے۔ منشور کے “سب کے لئے حقوق” کے سیکشن میں تفصیل سے پیپلزپارٹی کی جانب سے مجوزہ اقدامات پر بات کی گئی ہے جس میں زبردستی غائب کئے جانے والوں اور توہین مذہب کے قوانین کے غلط استعمال کے متعلق تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے۔ جنوبی پنجاب کے متعلق ایک سوال کے جواب میں چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پارٹی نے ہر دور میں جنوبی پنجاب کے متعلق بات کی ہے اور پارٹی نے جنوبی پنجاب کو ہمیشہ اس کا پورا حصہ دیا ہے۔ پارٹی نے جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کی بھی پیشرفت کی اور قانون سازی بھی کی گئی۔ اگر عوام چاہتی ہے کہ اس قانون سازی پر عمل ہو تو پاکستان پیپلزپارٹی کو دو تہائی اکثریت دی جائے کیونکہ اس کے لئے آئین میں ترمیم کی ضرورت ہے تاہم جب تک جنوبی پنجاب صوبہ نہیں بن جاتا تو جنوبی پنجاب کے پسماندہ عوام کو بااختیار بنانے کے لئے سارے اقدامات لئے جا سکتے ہیں۔ ملک سے پڑھے لکھے نوجوانوں کے باہر جانے کے متعلق ایک سوال کے جواب میں چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ یہ ایک حقیقی مسئلہ ہے۔ نوجوانوں کو ملازمتی مہیا کرنا ایک اہم مسئلہ ہے۔ پارٹی کی تجویز ہے کہ معیشت میں اس طرح سے سرمایہ کاری کی جائے جس سے معاشی سرگرمیاں پیدا ہوں اور ہم نے اس بحران کو ایک موقع میں تبدیل کرنا ہے۔ ہمارے یہاں نوجوانوں کی تعداد زیادہ ہے جبکہ دنیا بھر میں اس کا الٹ ہے۔ ان ممالک میں ملازمتیں ہیں لیکن انہیں پر کرنے والا کوئی نہیں۔ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ بطور وزیر خارجہ یورپین یونین اور دیگر ممالک سے انہوں نے اس کے متعلق پیشرفت کی تھی۔ جاپان کو ہر سال 40لاکھ لوگوں کی ضرورت ہے۔ پارٹی چاہتی ہے کہ وہ نوجوانوں کو جدید اور ٹیکنیکل مہارت آراستہ کرے اور انہیں مختلف زبانوں کے کورسز بھی کروائے تاکہ وہ دنیا بھر میں جا کر ملازمتیں حاصل کر سکیں جیسا کہ قائد عوام کے دور میں ہوا تھا۔ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پاکستان پیپلزپارٹی نے انتخابات میں 18فیصد پارٹی ٹکٹ نوجوانوں کو دئے ہیں جوکہ پی ٹی آئی اور پی ایم ایل ن سے بہت زیادہ ہیں۔ پاکستان کی آئندہ آنے والی نسلوں کو روایتی سیاست کا خمیازہ بھگتنا پڑ سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نوجوانوں کو زیادہ سے زیادہ نمائندگی دینی چاہیے تاکہ وہ اپنی آواز اٹھا سکیں۔ کراچی، حیدرآباد، سکھر کے تمام میئر نوجوان ہیں۔ نوجوانوں کو زیادہ مواقع دیئے جانے چاہئیں اور اگر نوجوانوں کو مواقع دئیے گئے تو وہ پاکستان کے لئے بہتر خدمات سرانجام دے سکتے ہیں۔ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ سیاست میں دو طریقے ہیں ایک تو یہ ہے کہ طاقت استعمال کی جائے جبکہ دوسرا طریقہ عوام کی مرضی ہے۔ پارلیمانی جمہوریت کی خوبصورتی یہ ہے کہ ہم دوسری رائے بھی سنتے ہیں اور مختلف آراءکے ذریعے فیصلے کر سکتے ہیں اور ہر رائے کی مساوی اہمیت ہوتی ہے لیکن جب سیاست ذاتی اناءپر ہو تو ملک اور معاشرہ ترقی نہیں کرسکتا۔ ہم صرف اشرافیہ کی فلاح و بہبود کی ریاست نہیں رہ سکتے۔ لوگ ایسی ملازمتیں کر رہے ہیں جو ان کی قابلیت سے بہت کم ہیں۔ پیپلزپارٹی سب سے بات کرکے ایک ایسی تجویز سامنے لا سکتی ہے اور عوام کے لئے ہم سب سے مل کر بات کرنے کے لئے تیار ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ اپنے معاشی ایجنڈے پر عملدرآمد کے لئے وہ نوجوانوں کی مدد لیں گے کیونکہ ہمیں نوجوانوں کی توانائیوں کی ضرورت ہے اور پیپلزپارٹی ہر طبقے سے مشور ہ لینے کے لئے تیار ہے۔ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ بطور وزیر خارجہ انہوں نے ڈیجیٹل پلیٹ فارم کو مونوٹائز کرنے کی حوصلہ افزائی کی۔ پیپلزپارٹی کمیونیکیشن انفراسٹرکچر پر سرمایہ کاری کرنا چاہتی ہے۔ موٹرویز پر سرمایہ کاری کرنے کا وقت گزر چکا اور اب عوام کو ہائی اسپیڈ انٹرنیٹ کی پورے ملک میں ضرورت ہے۔ اس کے نتیجے میں نوجوان ملک کو اس معاشی دلدل سے خود نکالنے میں کامیاب ہوں گے۔