چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے پیر کی شام تحریک نفاذ فقہ جعفریہ پاکستان (ٹی این ایف جے) ہیڈکوارٹرسیٹلائیٹ ٹاﺅن راولپنڈی کا دور ہ کیا اور ٹی این ایف جے کے سربراہ علامہ آغا سید حسین مقدسی سے ملاقات کی جس کے بعد ٹی این ایف جے کے سربراہ نے انتخابات میں پاکستان پیپلزپارٹی کی حمایت کا اعلان کیا۔ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے ساتھ پاکستان پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرینز کے سیکریٹری جنرل سید نیر حسین بخاری بھی موجود تھے جبکہ ٹی این ایف جے کے وفد میں ٹی این ایف جے کے سیکریٹری جنرل علامہ بشارت حسین امامی، ایڈیشنل سیکریٹری جنرل علامہ سید قمر حیدر رضوی، پولیٹیکل سیل کے چیئرمین ذوالفقار علی راجہ، سیکریٹری پبلک ریلیشنز سید حسن کاظمی اور کوآرڈینیٹر سید علی مہد شامل تھے۔ اس ملاقات کے بعد صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ وہ شہید محترمہ بینظیر بھٹو کے دور کے تعلقات بحال کرنے کے لئے آج یہاں آئے ہیں۔ نفرت اور تقسیم کی سیاست پاکستان کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ ہمیں متحدہونے کی ضرورت ہے اور ایک مستحکم اور بہتر پاکستان کے لئے ہم ایک ساتھ جدوجہد کریں گے۔ صحافیوں کے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ جس وقت وہ اتحادی حکومت میں شامل ہوئے تو پارٹی پی ڈی ایم کا حصہ نہیں تھی۔ پارٹی میں اتحادی حکومت میں اس لئے شمولیت اختیار کی تھی تاکہ ملک کے مسائل اور مشکلات کم کی جا سکیں لیکن دوسری پارٹی کو عوام کے مسائل کے حل میں دلچسپی نہیں تھی۔ ہمیں متحد ہو کر اپنے مسائل حل کرنے کی ضرورت ہے اور ایک ساتھ کام کرنے کے فوائد ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ وہ میاں نواز شریف کی تقریریں نہیں سنتے لیکن انہوں نے نواز شریف کو مباحثے کا چیلنج دیا ہے اور بین الاقوامی طور پر یہی ہوتا ہے کہ صدر یا وزیراعظم کے امیدوار مباحثہ کرتے ہیں تاکہ وہ اپنے منشور پر بات کر سکیں۔ شہباز شریف نے کہا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ یہ مباحثہ سندھ کے کسی شہر میں ہو تو اسے بھی قبول کر لیا گیا تھا۔ انہیں نہیں معلوم کہ میاں صاحب مباحثے سے کیوں بھاگ رہے ہیں۔ پاکستان اور خاص طور پر پنجاب ہمیشہ بہادروں کا ساتھ دیتا آیا ہے میاں صاحب اگر چوتھی مرتبہ وزیراعظم بننا چاہتے ہیں اور انہیں اپنی پالیسیوں کا علم ہے تو انہیں سندھ آکر کسی بھی شہر میں ہم سے مباحثہ کرنا چاہیے، چاہے وہ مباحثہ گمبٹ میں ہو، کراچی میں ہو یا تھرپارکر میں ہو۔ ایک اور سوال کا جواب دیتے ہوئے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ہم پچھلی تین نسلوں سے پاکستان میں سیاست میں ہیں۔ شہید ذوالفقار علی بھٹو، شہید محترمہ بینظیر بھٹو اور صدر آصف علی زرداری نے پارٹی کے منشور میں دئیے ہوئے سارے وعدے ہمیشہ پورے کئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جو بھی نفرت اور تقسیم کی سیاست کا خاتمہ چاہتا ہے ہم اس کے ساتھ چلنے کے لئے تیار ہیں۔ پنجاب میں پیپلزپارٹی کے کارکنوں پر تشدد اور زیادتیوں کے متعلق ایک سوال کے جواب میں چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پنجاب کے حکومت کے نگران وزیراعلیٰ اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کو ان لوگوں کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے جو پنجاب اور خاص طور پر حلقہ NA-127 میں پارٹی کے کارکنوں کو ہراساں کر رہے ہیں۔ جب پی ایم ایل ن کی ایک کونسلر نے پاکستان پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کی تو اسے گرفتار کر لیا گیا۔ جب پی ٹی آئی کے کونسلر نے پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کرنا چاہی تو انہیں اچانک یاد آگیا کہ 9مئی کے واقعات بھی ہوئے تھے۔ یہ پاکستان مسلم لیگ(ن) کی سیاست ہے کہ وہ بغیر کسی مخالف کے انتخابات لڑنا چاہتی ہے۔ یہ غیرجمہوری طرز عمل ہے۔ پی ایم ایل ن سمجھتی ہے کہ اس نے ایک پارٹی کو ٹیکنیکل بنیاد پر انتخابات سے باہر کر دیا ہے۔ اب وہ یہی غیرجمہوری طریقہ پیپلزپارٹی کے خلاف استعمال کرنا چاہتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ پنجاب کے وزیراعلیٰ، آئی جی اور چیف سیکریٹری سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ کیا پیپلزپارٹی کے کارکن 9مئی کے واقعات میں ملوث تھے جس پر انہیں ہراساں کیا جا رہا ہے؟ جب بھی پیپلزپارٹی کے کارکن ایکٹو ہوتے ہیں تو انہیں گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ ایک پارٹی تو ایسی ہے کہ جو ہر صورت میں احتجاج کرے گی چاہے انتخابات کا نتیجہ کچھ بھی ہو یا یہ لوگ چاہتے ہیں کہ ایک دوسری پارٹی بھی اس احتجاج میں شریک ہو جائے۔ مسلم لیگ(ن) کیوں خوفزدہ ہے؟ یہ لوگ تو کہتے ہیں کہ میاں صاحب سب سے زیادہ مقبول سیاستدان ہیں تو پھر پیپلزپارٹی کے کارکنوں کو کیوں ہراساں کر رہے ہیں؟ میاں صاحب زور اور زبردستی سے چوتھی مرتبہ وزیراعظم بننا چاہتے ہیں لیکن اس ملک کے عوام کی اکثریت انہیں چوتھی مرتبہ وزیراعظم نہیں دیکھنا چاہتی۔ پاکستان مسلم لیگ(ن) عدم تحفظ کے احساس کا شکار ہے۔