چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے شہید ذوالفقار علی بھٹو کے صدارتی ریفرنس کی سماعت میں شرکت کے بعد میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کے معاون، آئینی اور قانونی ماہرین نے قانونی اور آئینی پہلوﺅں پر دلائل کے بعد اب وہ اس کیس کے مجرمانہ پہلوﺅں پر بات کر رہے ہیں۔ عدالت کے معاون کسی کی ترجمانی نہیں کرتے لیکن اب تک جتنے عدالتی معاونین نے بات کی ہے ان سب کی یہ رائے ہے کہ شہید ذوالفقار علی بھٹو کی سزا کا کوئی جواز نہیں تھا۔ ان تمام ماہرین نے بے تحاشہ ثبوت اس بات کے دئیے کہ اس کیس میں انصاف کا قتل ہوا ہے اور شہید ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل کیا گیا تھا۔ اس میں کسی قسم کا عدالتی طریقہ کار نہیں اپنایا گیا بلکہ انہیں قتل کیا گیا۔ عدالت میں یہ ساری کارروائیاں جاری ہیں اور اب تک اس کیس کی دوسری پارٹیوں یعنی انہیں خود، بی بی بختاور بھٹو زرداری، بی بی آصفہ بھٹو زرداری، فاطمہ بھٹو اور ذوالفقار علی بھٹو جونیئر نے عدالت سے خطاب نہیں کیا ہے۔ ہمیں امید ہے کہ بالآخرانصاف ہوگا اور اداروں پر جو دھبے لگے ہیں وہ دھل جائیں گے۔ صحافیوں کے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے چیئرمین بلاول بھٹوکہا کہ ابھی تک گورنرز کے متعلق طریقہ کار شروع نہیں ہوا اور صدر زرداری صدر بننے کے بعد گورنرز کے لئے نام شارٹ لسٹ کریں گے۔ چیئرمین بلاول بھٹوایک اور سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ اس کیس میں ایک مضبوط فیصلہ دے کر ہی تاریخ کو درست کیا جا سکتا ہے اور انتقام کی روایت کو ہمیشہ کے لئے دفن کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کا تین نسلوں سے مستقل موقف ہے کہ ملک کے تمام اداروں کو آئینی حدود کے اندر رہ کر کام کرنا چاہیے۔ یہ موقف جمہوریت کے استحکام، معیشت، وفاق اور پاکستان کے لئے انتہائی ضروری ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری عدلیہ، اسٹیبلشمنٹ اور دیگر ادارے آئین کے اندر کام کریں تو ملک کے سیاستدانوں کو پہلے یہ سمجھنا ہوگا کہ انہیں اپنی سیاسی حدود میں رہنا کتنا ضروری ہے۔ اس پر عمل کر کے ہی ہم 9مئی جیسے واقعات سے بچ سکتے ہیں۔ ہمیں اپنے میڈیا، عدلیہ اور دیگر اداروں سے یہ امید نہیں لگانی چاہیے اگر ہم خود اپنی حدود میں نہیں رہتے۔ سیاستدانوں کو ایک دوسرے کی عزت کرنے کا فیصلہ کرنا ہوگا۔ اگر سیاستدان ہی ایک دوسرے کی عزت نہیں کریں گے تو وہ کیسے یہ توقع کر سکتے ہیں کہ دیگر ادارے ان کی عزت کریں۔ انہوں نے کہا کہ اگر سیاستدان یہ فیصلہ کر لیں کہ اپنی انا اور ذاتی دشمنی کو ختم کر دیں گے تو ملک کے بہت سارے مسائل خود بخود حل ہو جائیں گے۔ ایک اور سوال کا جواب دیتے ہوئے چیئرمین بلاول بھٹوزرداری نے کہا کہ پیپلزپارٹی صرف اپنے متعلق ہی نہیں سوچتی اور ملک کے حالات سے بے خبر نہیں ہو سکتی۔ پیپلزپارٹی کے پاس وہ نمبر نہیں تھے جو حکومت بنانے کے لئے ضروری ہیں۔ پیپلزپارٹی کو حکومت کی حمایت کا فیصلہ اس لئے کرنا پڑا کہ ملک کی معیشت، جمہوریت، استحکام اور وفاق سب خطرے میں تھے۔ جس پارٹی نے پیپلزپارٹی کو حکومت بنانے کے لئے مدد کی ضرورت تھی اس نے ہم سے مدد مانگی۔ سنی اتحاد کونسل نے پاکستان پیپلزپارٹی سے ووٹ لینے کے لئے رابطہ ہیں نہیں کیا۔ اب جب انہوں نے خود کوشش نہیں کی تو وہ یہ اعتراض نہیں کر سکتے کہ دوسرا حکومت کیوں بنا رہا ہے۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ کسی دوسری سیاسی پارٹی سے رابطہ نہیں کریں گے۔ اس کے بعد ہمارے پاس یہی موقع تھا کہ پیپلزپارٹی اس پارٹی سے بات کرے جو حکومت بنانا چاہتی ہے۔ چیئرمین بلاول بھٹوزرداری نے کہا کہ ہم سنی اتحاد کونسل اور پی ٹی آئی کے شکرگزار ہیں جنہوں نے مریم نواز اور سید مراد علی شاہ کو اپنے اپنے صوبوں میں بلا مقابلہ وزیراعلیٰ منتخب کرا دیا اور اب شہباز شریف بھی بلا مقابلہ وزیراعظم منتخب ہونے جا رہے ہیں جس کا سارا کریڈٹ بھی انہی دونوں پارٹیوں کو جاتا ہے۔ چیئرمین بلاول بھٹوزرداری نے کہا کہ صدرعارف علوی صدر کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کر سکے۔ اب انہیں قانونی چیلنجوں کا سامنا کرنا ہوگا۔ ان پر ایک کیس تو یہ بنے گا کہ جب قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک موجود تھی تو انہوں نے آئین توڑتے ہوئے قومی اسمبلی تحلیل کر دی تھی اور اب وہ ایک دفعہ پھر آئین کو توڑتے ہوئے قومی اسمبلی کا اجلاس نہیں بلا رہے۔ چیئرمین بلاول بھٹوزرداری نے کہا کہ ایک اور سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ عوام کے مسائل جمہوریت اور زیادہ جمہوریت سے ہی حل ہو سکتے ہیں۔ مفاہمت ضروری ہے لیکن مفاہمت کا عمل بہت مشکل ہے۔ میثاق جمہوریت کے وقت پی ایم ایل (ن) اور پی پی پی نے اپنی غلطیاں تسلیم کرکے مستقبل کا لائحہ عمل بنایا تھا۔ پی ٹی آئی کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنی غلطیاں تسلیم کرنے سے انکاری ہے اور ملک کے آئین، جمہوریت اور نظام پر یقین نہیں رکھتی۔ صدر آصف علی زرداری نے اپنی پریس کانفرنس میں یہ کہا تھا کہ پی ٹی آئی مفاہمت کے عمل کا حصہ ہوگی لیکن ابھی تک پی ٹی آئی اپنی غلطیاں تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ ایک اور سوال کا جواب دیتے ہوئے چیئرمین بلاول بھٹوزرداری نے کہا کہ پاکستان پیپلزپارٹی کی کارکردگی کی وجہ سے سندھ میں اسے تاریخی مینڈیٹ ملا ہے۔ معروف معاشی ماہر حفیظ پاشا نے اپنی کتاب میں سارے صوبوں کی کارکردگی کا تقابلی جائزہ کیا ہے۔ سندھ کی کارکردگی سارے صوبوں بشمول پنجاب سے بہتر رہی ہے اسی لئے سید مراد علی شاہ کو وزیراعلیٰ کے لئے پی پی پی کا امیدوار بنایا گیا اور وہ کامیاب بھی ہوگئے۔ چیئرمین بلاول بھٹوزرداری نے کہا کہ پیپلزپارٹی چاہتی تھی کہ اقتدار میں آکر تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کر دیا جائے لیکن اب پیپلزپارٹی اقتدار میں نہیں اور وہ حکومت کو صرف ایسا کرنے کی تجویز دے سکتی ہے۔