اسلام آباد(13فروری 2024)
چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے پارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی (سی ای سی) کے دو روزہ اجلاس کے اختتام پر زرداری ہاﺅس اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اجلاس میں ملکی سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال ہوا اور پاکستان کے بحران پر تشویش کا اظہار کیا گیا اور زیر بحث لایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ پی پی پی کا اصولی موقف یہ ہے کہ پاکستان کو درپیش بحرانوں سے نکالا جائے۔ وقت آگیا ہے کہ ایک بار پھر “پاکستان کھپے” کا نعرہ لگایا جائے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے پاس وفاقی حکومت بنانے کا مینڈیٹ نہیں اس لئے پیپلزپارٹی ان کا نام بطور وزیراعظم پیش نہیں کرے گی۔ چیئرمین پی پی پی نے کہا کہ دیگر دو گروپ قومی اسمبلی میں زیادہ تعداد میں ہیں، آزاد گروپ اور پی ایم ایل(ن)۔ پی ٹی آئی نے اعلان کیا ہے کہ وہ پاکستان پیپلزپارٹی سے مذاکرات کرے گی اور نہ ہی مسلم لیگ (ن) سے مذاکرات کے لئے تیار ہے۔ اب پی ایم ایل(ن) رہ گئی ہے جو قومی اسمبلی میں موجود ہے اور اس نے پیپلزپارٹی کو حکومت میں شامل ہونے کے لئے مدعو کیا ہے۔ پیپلزپارٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم وفاقی حکومت میں شامل نہیں ہوں گے اور نہ ہی ہم حکومت میں وزارتیں لیں گے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہم ملک میں سیاسی افراتفری نہیں چاہتے اور نہ ہی ہم ملک کو مستقل بحران میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ اب ہمارے پاس کیا آپشن رہ جاتا ہے۔ اگر پی ٹی آئی ہمارے ووٹ نہیں چاہتی اور پی ایم ایل(ن) کے پاس اکثریت نہیں اور نہیں ہی میں وزیراعظم کا امیدوار ہوں اور اگر ایوان وزیراعظم منتخب کرنے میں ناکام ہو جاتا ہے تو ہمیں دوبارہ انتخابات میں جانا پڑے گا اور اس طرح سیاسی بحران جاری رہے گا اور ملک میں استحکام نہیں آئے گا بلکہ سیاسی عدم استحکام میں اضافہ ہوگا جس کے مضمرات کا سامنا پاکستان کے عوام کو ہوگا جو اس وقت نہ صرف یہ کہ سیاسی بحران کا سامنا کر رہے ہیں بلکہ معاشی، دہشتگردی اور موسمیاتی تبدیلی کے خطرات بھی اس کے سامنے ہیں۔ پاکستان پیپلزپارٹی نے ایک منشور پر انتخابات میں حصہ لیا جس میں عوامی معاشی معاہدہ بھی شامل تھاا ور ہمارا یہ عزم ہے کہ ملک میں سیاسی عدم استحکام کا خاتمہ کریں اس لئے پارٹی ایشو ٹو ایشو بنیاد پر وزیراعظم کے لئے ووٹ دے گی تاکہ حکومت بنے اور سیاسی استحکام قائم کیا جا سکے اس لئے پیپلزپارٹی نے فیصلہ کیا کہ دیگر سیاسی پارٹیوں سے بھی رابطے رکھے جہانتک حکومت سازی کا معاملہ ہے پاکستان پیپلزپارٹی ایک کمیٹی بنائے گی جو دیگر سیاسی پارٹیوں کے ساتھ رابطہ رکھے گی۔ ہم کوشش کریں گے کہ ملک کو ایسی راہ پر گامزن کریں جو پاکستان کے عوام کے لئے درست ہے کیونکہ عوام مزید افراتفری نہیں چاہتے اور عوام اپنے سیاستدانوں کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ وہ ملک میں استحکام لائیں۔ اجلاس کے دوران سی ای سی کے اراکین نے مسلم لیگ(ن) کے ساتھ 18 ماہ کی حکومت کے دوران مسلم لیگ پر اعتراضات بھی اٹھائے اور اراکین نے اس بات کا اظہار کیا کہ ان کے تحفظات کو حل نہیں کیا گیا۔ اس لئے اعتماد سازی ضروری ہے نہ صرف یہ کہ ہم دیگر پارٹیوں کے ساتھ حکومت سازی پر گفتگو کریں گے تاکہ پیپلزپارٹی کی شکایات اور تحفظات کو حل کیا جائے۔ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے2024 کے عام انتخاب پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 2013 اور 2018ءکے درمیان یہ حکومت اور ان کے انتخابات کے دوران بھی وہی تحفظات سامنے آئے۔ اراکین نے اس بات کا بھی اظہار کیا کہ نہ تو انہیں لیول پلئینگ فیلڈ ملی، انتخابات میں دھاندلی اور بے ضابطگیاں بھی ہوئیں۔ پارٹی کی سی ای سی نے فیصلہ کیا ہے کہ ان تمام اعتراضات اور شکایات کو مجتمع کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ عام اور ملک میں مفاد میں تمامتر تحفظات، اعتراضات اور احتجاجوں کے باوجود ان انتخابات کے نتائج کو قبول کریں گے اور ان معاملات کو اٹھائیں گے تاکہ آئندہ ہونے والے انتخابات پر کوئی سوال نہ اٹھ سکے۔ اس کے لئے ہم مختلف فورمز استعمال کریں گے جن میں الیکشن آف پاکستان اور پارلیمنٹ وغیرہ شامل ہیں۔ اس سے قبل ہونے والے سی ای سی کے اجلاس میں ہم نے اپنے خدشات کا اظہار صدر زرداری سے بھی کیا تھا جنہوں نے اجلاس کو یقین دہانی کرائی تھی کہ انہیں حل کیا جائے گا بدقسمتی سے اس کے باوجود پارٹی کے متعدد اعتراضات موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے بذاتِ خود سی ای سی کے حوالے سے صدر زرداری کو ان خدشات سے آگاہ کیا تھا جن میں لیول پلائینگ فیلڈ اور بے ضابطگیوں کے شواہد دئیے گئے تھے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہر انتخابات میں اسی قسم کے خدشات سامنے آتے رہیں۔ ملک میں سیاسی استحکام کے لئے سارے خدشات کو حل کرنا ضروری ہے۔ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ عوام کو امید دلانے کے لئے یہ ضروری ہے۔ اسٹاک ایکسچینج کا تیزی سے گرنا اور بین الاقوامی کمیونٹی کی جانب سے خدشات کا اظہار کے حل کے لئے یہ ضروری ہو کہ پارلیمنٹ اور حکومت قائم کی جائے کیونکہ یہی وہ فورم ہیں جہاں سے عوام کے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ پارٹی اس بات کو یقینی بنائے گی کہ عوام کے لئے حکومت قائم کی جائے اور ہم نئے انتخابات کی جانب نہ جائیں اور ملک دوبارہ ایک شدید تر بحران میں گِھر جائے۔ صحافیوں کے سوالات دیتے ہوئے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ان انتخابات میں کسی کو بھی ایک واضح مینڈیٹ نہیں ملا اور بشمول پی پی پی کوئی بھی اپنے طور پر حکومت نہیں بنا سکتا۔ انتخابات آسانی سے منعقد نہیں ہوتے اس کے لئے ہمارے کارکن انتھک محنت کرتے ہیں اور ان کا خون اس میں شامل ہوتا ہے۔ اگر ہم دوبارہ انتخابات کی طرف جاتے تو ملک میں مزید افراتفری اور سیاسی عدم استحکام ہوتا مزید برآں دیگر سیاسی پارٹیوں کی جانب سے بھی انتخابات کے نتائج کو تسلیم کرنے میں بے یقینی پائی جاتی ہے۔ پاکستان کے عوام ایک پیغام دے رہے ہیں لیکن کوئی اسے نہیں سن رہا۔ پاکستان کے عوام نے ایک اسپلٹ مینڈیٹ دیا ہے کہ ملک صرف ایک پارٹی کی مرضی پر نہیں چلایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے اس انداز میں ووٹ دیا کہ سیاسی پارٹیاں آپس میں تعاون کریں اور عوام کے مسائل حل کریں۔ بدقسمتی سے آج پی ٹی آئی بھی ایسے فیصلے لے رہی ہے جو آپ کے مفاد میں نہیں۔ عوام نے اسے ووٹ دیا تاکہ عوام کی مشکلات حل ہوں۔ ہم دیگر سیاسی قوتوں سے بات کر رہے ہیں کہ وہ بھی عوام کی آواز سنیں۔ پارٹی اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ ہم اپنے ملک کے عوام کی مدد کریں اور یہ ہماری ذمہ داری ہے اوریہ کہ ہم عدم استحکام ختم کریں اس لئے ایک مرتبہ پھر “پاکستان کھپے” کا نعرہ لگایا ہے۔ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پارٹی حکومت میں وزارتیں نہیں لے گی اور ایشو ٹو ایشو اور اپنے منشور کی بنیاد پر حکومت کی حمایت کرے گی۔ ہم نے ایک مذاکراتی کمیٹی بنائی ہے تاکہ ٹرمز اینڈ کنڈیشنز بتائی جائیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ وہ قائد حزب اختلاف ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ پارٹی سندھ اور بلوچستان میں حکومت بنانے کی کوشش کرے گی اس کے علاوہ پارٹی کا یہ حق ہے کہ آئینی عہدے اسے دئیے جائیں۔ جب شہید محترمہ بینظیر بھٹو 17 اراکین کے ساتھ قومی اسمبلی میں آئی تھیں تو انہوں نے بھی آئینی عہدوں کے لئے اپنے امیدوار کھڑے کئے تھے۔ پیپلزپارٹی یقینی طور پر آئینی عہدوں کے لئے اپنے امیدوار نامزد کرے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ مسلم لیگ(ن) اور دیگر پارٹیوں کو پورا حق ہے کہ وزیراعظم کے امیدوار کے لئے نامزدگی کریں۔ پارٹی بھی ان عہدوں کے لئے اپنے امیدوار نامزد کرے گی۔ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ یہ ان کی ذاتی خواہش ہے کہ صدر کے عہدے کے لئے صدر زرداری پارٹی کے امیدوار ہوں کیونکہ اس وقت ملک جل رہا ہے اور آگ کی لپیٹ میں ہے جسے صدر زرداری بجھا سکتے ہیں۔ ایک اور سوال کا جواب دیتے ہوئے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پیپلزپارٹی کا ہمیشہ سے ہی یہ موقف رہا ہے کہ پارلیمن ©ٹ اور وزیراعظم اپنی معیاد پوری کریں۔ اگر مسلم لیگ(ن) کے امیدوار نفرت اور تقسیم کیا روایتی سیاست پر عمل کرتے ہیں تو وفاق اور جمہوریت کے لئے چلنا مشکل ہو جائے گا بلکہ مسلم لیگ(ن) اور دیگر تمام پارٹیاں جن میں پی ٹی آئی بھی شامل ہے صرف اپنے متعلق نہ سوچیں بلکہ ملک کے متعلق سوچیں۔ ملک کے دشمن موجودہ صورتحال سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ ہمیں آئینی دائرے کے اندر سیاست کرنی چاہیے اور سیاسی قوتوں کو یہ ادراک کرنا چاہیے کہ انہیں بھی ہوشمندی سے کام لینا ہوگا۔ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ایک اور سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ پیپلزپارٹی اور دیگر پارٹیوں کے درمیان پالیسی پر ٹکراﺅ ہو سکتا ہے اور یہ جمہوریت کی خوبصورتی ہے کہ تمام آراءکی عزت کی جائے۔ اگر پارلیمان میں کئے گئے فیصلے اتفاق رائے کی بنیاد پر ہوں تو امید کی جا سکتی ہے کہ یہ عوام کے فائدے میں ہوگا۔ اگر ہم عوام کے بنیادی مسائل پر توجہ نہیں دیتے تو اس سے نہ صرف سیاسی پارٹی بلکہ پوری قوم کا نقصان ہوگا۔ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پیپلزپارٹی چاہتی تو اس صورتحال کا فائدہ اٹھا سکتی تھی اور پی ٹی آئی اور مسلم لیگ(ن) کو بلیک میل کر سکتی تھی۔ یہ مفاہمت کی سیاست نہیں اور پاکستان کے عوام کی محبت ہمیں اس بات پر مجبور کرتی ہے کہ ہم یہ فیصلہ لے رہے ہیں۔ ہم نے اس راستے کا انتخاب اس لئے کیا ہے کیونکہ پارٹی کی قیادت اور جیالوں نے جمہوریت کے لئے عظیم قربانیاں پیش کی ہیں۔ پنجاب میں پارٹی کی سیاسی اسپیس کا تعلق ہے۔ یہ ماضی کے انداز کا تسلسل ہے اور یہ خدشات ہم نے صدر زرداری تک پہنچا دئیے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ شہید محترمہ بینظیر بھٹو کی کوششوں ہی سے انتخابی اصلاحات ہوئی تھیں اور یہ اصلاحات ڈکٹیٹر جنرل ضیاءکے دور میں ہوئی تھیں اور فارم 45 کا اجراءہوا تھا۔ عبوری حکومت کا متفقہ فارمولہ پارٹی کی جانب سے متعارف کروائی گئی ایک ترمیم کی بنیاد پر ہوا تھا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو 2013ءمیں پیپلزپارٹی کی حکومت جیسے چاہتی ایسے انتخابات کروا لیتی۔ پیپلزپارٹی انتہاپسندی کی سیاست نہیں کرے گی۔ پاکستان کے عوام اس بات کی توقع نہیں کرتے کہ میں اپنے ذاتی فائدے کے لئے انتہا پسندانہ موقف اپناﺅں۔ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پارٹی نے انتخابات کے متعلق خدشات میڈیا کے سامنے بھی رکھے اور ای سی پی کو بھی لکھا۔ ہم نے صدر زرداری کو لیو پلئنگ فیلڈ کے خدشات پہنچائے اور انہوں سی ای سی کو ان کے حل کی یقین دہانی کروائی تھی۔ ان خدشات کو ایسی انتخابی اصلاحات سے دور کیا جا سکتا ہے جس سے آئندہ انتخابات میں کسی کو کوئی اعتراض نہ ہو۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی نے “شیر آیا، شیر آیا” کو اپنی عادت بنا لیا ہے جبکہ حقیقت اور تاریخی سچائی یہ ہے کہ انتخابات کی اکثریت میںپی ٹی آئی کے خلاف حالات ان کے خلاف نہیں تھے۔ ہمیں 35پنکچر یاد ہیں کیونکہ ان حالات میں ملک کو دھرنوں اور احتجاج سے نقصان پہنچایا گیا تھا۔ ان خدشات کے حل کے لئے دیگر فورمز موجود ہیں۔ اگر تھوڑی بہت تبدیلیاں بھی ہو جاتی ہیں تو بھی کوئی پارٹی اکیلے حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ پی ٓٹی آئی نے خود کہا ہے کہ وہ دیگر پارٹیوں کے ساتھ بات کرنے کے لئے تیار نہیں ہے ۔ اس بات سے یہ ظاہر ہوجاتا ہے کہ وہ حکومت بنانے میں دلچسپی نہیں رکھتے اور نہ ہی وہ سیاسی استحکام کا ماحول چاہتے ہیں۔ وہ اپنی انتہاپسندانہ اور پاپولیسٹ سیاست کرنا چاہتے ہیںاور جمہوری طریقہ کار کو بلا جواز قرار دینے کی خواش رکھتے ہیں۔ وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ملک میں افراتفری کو پھیلانے سے ان کی سیاست کو فائدہ ہوتا ہے۔ پاکستان میں ایسا ہوتا رہا ہے لیکن ہم ایک ایسے حالات پر پہنچ گئے ہیں جہاں امریکہ کے جمہوری نظام میں بھی اسی قسم کی پاپولر سیاست کی جا رہی ہے۔ اس سیاست میں آپ دوسروں پر الزام لگاتے ہیں اور دھاندلی کا شور مچاتے ہیں تاکہ جمہوری نظام اور اداروں کی ساکھ خراب کی جا سکے اور وہ اس کا فائدہ اٹھا کر نہ صرف حکومت بنائیں بلکہ اداروں کی ساکھ بھی متاثر کریں۔ یہ چیلنج پوری دنیا کو درپیش ہے۔ پاکستان ایک کمزور جمہوریت ہے جہاں نصف عرصے تک ڈکٹیٹرشپ قائم رہی ہے۔ اس مسئلے سے ہم اسی صورت میں نمٹ سکتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ جمہوریت قائم کرتے چلے جائیں۔ ان کوششوں کے مضمرات کا نقصان پاکستان کے عوام کو ہوگا خاص طور پر اس وقت جب ملک کو معاشی اور سکیورٹی کے بحرانوں کا سامنا ہے۔ ہمیں بہت سارے چیلنجوں سے نمٹنا ہوگا اور اس کے لئے ہم مستقل سیاسی قوتوں کے ساتھ مل کر کوششیں کرتے رہیں گے۔ ہمیں اپنا انداز سیاست ایسا کرنا چاہیے کہ جس سے جمہوری اداروں کو تقویت مل سکے۔ ایک اور سوال کا جواب دیتے ہوئے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ایم کیو ایم نے پرتشدد انداز اپنایا۔ یہ تشویش کی بات ہے کہ ایم کیو ایم کے لڑاکا عناصر کو ان انتخابات کے دوران جیلوں سے رہا کروایا گیا۔ ہمارے امیدواروں پر تشدد کیا گیا، ان کے دفاتر اور ان کی گاڑیوں کو آگ لگائی گئی۔ ہم کراچی کے امن اور ترقی کے لئے پرتشدد لوگوں سے کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ ہمارا ان کے لئے پیغام ہے کہ وہ نفرت کی سیاست نہ کریں اور شہر کو لسانی بنیادون پر تقسیم کرنے سے باز رہیں۔