پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ 8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات کے نتیجے میں خدانخواستہ، اگر مسلم لیگ (ن) یا پی ٹی آئی میں سے کوئی بھی جماعت اقتدار میں آئی، تو وہ اپنی انتقام کی سیاست کے ذریعے ملک و عوام کو نقصان پہنچائیں گی۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ 2024ع کے الیکشن میں بھی 2018ع کی طرح اس طرح مہم چلائی جائے کہ ایک فرشتہ ہے، باقی سب گند ہے۔ ملک میں تصادم کی سیاست کے بجائے مفاہمت کی جانب جانا ہوگا، فیصلے اتفاقِ رائے سے کرنا ہوں گے۔ میڈیا سیل بلاول ہاوَس کراچی کی جانب سے جاری کردہ پریس رلیز کے مطابق، چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کوئٹہ میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ان کی جماعت 8 فروری کو ہونے والے الیکشن میں سب کو ایک اچھا سرپرائیز دے گی۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے عوام نے 30 نومبر کو یوم تاسیس کے جلسے کے ذریعے دکھا دیا ہے کہ وہ کس کے ساتھ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی اور اس کے رہنما جانتے ہیں کہ الیکشن کیسے لڑا جاتا ہے اور کیسے جیتا جاتا ہے۔ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا پاکستان ہو یا دنیا، اسٹیبلشمینٹ ایک حقیقت ہے۔ بطور نوجوان سیاستدان وہ چاہتے ہیں کہ ملک میں تصادم کی سیاست کو اتفاق رائے کی سیاست کے طرف لے کر جائیں۔ تمام سیاسی جماعتوں اور اداروں کے درمیان فیصلے اتفاق رائے سے کیے جائیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ 2018ع کی طرح یہ نہیں ہوسکتا کہ پورے پاکستان کو بتایا جائے کہ یہ جو خان ہے، یہ آپ کا مسیحا ہے، آپ کو اسی کا ساتھ دنیا ہے، باقی سب تو گندے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ ادارے اپنے اپنے دائرہ کار میں رہ کر کام کریں۔ پی پی پی چیئرمین نے مہنگائی، بے روزگاری اور غربت کو ملک کے اصل اشوز قرار دیئے اور کہا کہ اگر ان مسائل کو حل کرنا ہے تو پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت بنانا پڑے گی۔ پاکستان پیپلز پارٹی وہ واحد جماعت ہے، پورے وفاق، سارے اداروں، تمام سیاسی جماعتوں، طبقات، تمام زبانیں بولنے والوں اور علاقوں کو ساتھ لے کر چل سکتی ہے۔ ایک صحافی کی جانب سے میاں نواز شریف کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کے قائد انتظامیہ کے بجائے اپنے نظریے کی بنیاد پر الیکشن لڑیں۔ میاں صاحب ووٹ کو عزت دلوائیں، ووٹ کی بے عزتی نہ کروائیں۔ مسلم لیگ (ن) کی جانب سے اٹھارویں ترمیم کے خاتمے کے حوالے سے اعلانات کے متعلق سوال کے جواب میں پی پی پی چیئرمین کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) کی یہ سوچ ملک اور وفاق کے لیے خطرناک ہے۔ اٹھارویں ترمیم کا خاتمہ چاہنے والے بلوچستان، سندھ، خیبرپختونخواہ اور پنجاب کے وسائل پر ڈاکہ مارنا چاہتے ہیں۔ عوام کی صحت اور تعلیم کی بجٹ کو کاٹ کر، اسے اسلام آباد بھیجنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 17 وزارتیں اسلام آباد میں کام کر رہی ہیں، جنہیں نہیں ہونا چاہیے، وہ کام اب صوبوں کو ہونا چاہیے۔ ان کا سالانہ بجٹ 100 ارب روپیہ ہے، جو ضایع ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پی پی پی کی حکومت بنے گی، تو اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کے عمل کو مکمل کیا جائے گا۔ میں وہ وفاقی وزارتیں بند کرکے، وہ 100 ارب روپے اپنی عوام پر خرچ کروں گا۔ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ایک اور سوال کے جواب میں کہا کہ کچھ لوگوں کو ہواو ¿ں کے ر ±خ ا ±ن کی طرف ہونے کی غلط فہمی ہے۔ رائے ونڈ کی طرف سے کسی نہ کسی طریقے سے ہوا بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جن کو لاہور میں ٹماٹر، انڈے پڑ رہے ہیں، ان کو سندھ نہیں پنجاب کی فکر ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم عوام کا لاڈلہ بننے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں ہواو ¿ں کا ر ±خ عوام بناتے ہیں، جب عوام فیصلہ کر لے تو پھر سب کو عوام کا فیصلہ ماننا پڑتا ہے۔پی پی پی چیئرمین کا کہنا تھا کہ شہید محترمہ بینظیر بھٹو نے ہمیشہ لیول پلیئنگ فیلڈ کیلئے جدوجہد کی۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے ہمیشہ صرف اپنے لیے نہیں، بلکہ تمام سیاسی جماعتوں کیلئے لیول پلیئنگ فیلڈ کی بات کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ صدر آصف علی زرداری نے اپنے دورِ صدارت کے دوران اٹھارویں ترمیم کے ذریعے صوبوں کو اختیارات دیئے۔ اس بار اگر اللہ تعالیٰ نے موقع دیا تو بلوچستان کے مسائل حل کر کے دکھائیں گے۔پاکستان میں موجود افغان شہریوں کے معاملے پر بات کرتے ہوئے پی پی پی چیئرمین نے کہا کہ یہ ایک پیچیدہ معاملہ ہے۔ حکومت کو جذباتی ہونے کے بجائے، میزبان کمیونٹیز سمیت تمام متعلقہ اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کرنی چاہیے تھی۔ انہوں نے کہا کہ ڈیورنڈ لائین کے دونوں جانب کے عوام جنگ سے تنگ آچکے ہیں، وہ جینا اور ترقی چاہتے ہیں۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ افغانستان کو ایک ریاست کی طرح اپنا رویہ اپنانا چاہیے۔ افغانستان کو یہ دکھانا چاہیے کہ پاکستان کا دشمن افغانستان کا دشمن ہے۔ چمن میں جاری احتجاج پر بات کرتے ہوئے، انہوں نے کہا کہ ٹی وی پر کوریج نہ دینے سے مسائل حل نہیں ہوتے۔ حکومت کو چمن میں احتجاج کرنے والوں سے مذاکرات کرنا اور مسئلے کا حل نکالنا چاہیے۔