اسلام آباد(2 جنوری 2024)
پاکستان پیپلزپارٹی کے ہیومن رائٹس سیل کے صدر سینیٹر فرحت اللہ بابر نے ایک بیان میں نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کی جانب سے ان بلوچ خواتین جو اسلام آباد میں احتجاج کر رہی ہیں کے بارے ریمارکس کو بے حسی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ بیان اشتعال انگیز بھی ہے جو بلوچستان کے عوام کے حقیقی مسائل سے چشم پوشی جیسا مجرمانہ فعل ہے۔ ہمارے نگران وزیراعظم کو نئے سال کے موقع پر بلوچستان کے عوام کے زخموں پر مرہم رکھنا چاہیے تھا لیکن انہوں نے طاقت کے نشے میں چور ہوکر ان کے زخموں پر نمک پاشی کی ہے۔ یہ انتہائی بدقسمتی اور قابل مذمت ہے۔ اس بھی زیادہ خراب بات یہ ہے کہ زبردستی غائب کئے جانے والوں کے لئے جو آوازیں بلند ہو رہی ہے ان کے متعلق وزیراعظم کاکڑ نے کہا کہ یہ لوگ بلوچستان میں دہشتگردوں کے وکیل ہیں اور انہیں یہ مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ جائیں اور دہشگردوں کے ساتھ مل جائیں۔ اس قسم ک اشتعال انگیز اور گھٹیا گفتگو ان لوگوں نے بھی نہیں کی جن پر زبردستی غائب کرنے کے الزامات ہیں۔ سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ کوئی بھی دہشتگردوں کی وکالت نہیں کر رہا اور نگران وزیراعظم یا تو بالکل بے خبر ہیں یا جان بوجھ کر مسئلے سے چشم پوشی کر رہے ہیں۔ مطالبہ صرف یہ ہے کہ جو لوگ زبردستی غائب کئے گئے ہیں انہیں عدالتوں کے سامنے پیش کیا جائے اور ان کے ساتھ قانون اور آئین کے مطابق سلوک کیا جائے۔ بلوچستان اور ملک کے دیگر علاقوں میں زبردستی غائب کیے جانے والے افراد ایک حقیقت ہیں اور ریاست کے اوپر سیاہ دھبہ ہیں۔ اس کے خلاف آوازیں اٹھتی رہیں گی اور نگران وزیراعظم کی دھمکیاں کام نہیں آئیں گی۔ وزیراعظم جیسے لوگوں کو چاہیے کہ وہ سپریم کورٹ کا 10دسمبر 2013ءکا فیصلہ پڑھیں جو مالاکنڈ کے حراستی مرکز سے 28غائب ہونے والے افراد کے متعلق ہے۔ انہیں 28اگست 2018ءکو سینیٹ کی کمیٹی برائے انسانی حقوق کے اجلاس کے منٹس بھی پڑھنے چاہئیں۔ انہیں آئی ایس پی آر کا 5جولائی 2019ءکا وہ بیان بھی دیکھنا چاہیے جس میں یہ اعتراف کیا گیا ہے کہ چند غائب شدہ افراد فوج کی حراست میں ہیں اور جی ایچ کیو میں غائب ہونے والے افراد کے لئے ایک سیل بھی بنایا گیا ہے۔ یہ تمام دستاویزات سب کے علم میں ہیں سوائے وزیراعظم کاکڑ کے۔ نگران وزیراعظم کو عوام بالخصوص بلوچستان کے عوام سے معافی مانگنی چاہیے اور اپنا یہ بیان واپس لینا چاہیے۔ انہیں یہ ریمارکس اس وقت بھی تنگ کریں گے جب وہ وزیراعظم نہیں رہیں گے اور تاریخ کے کوڑے دان میں پڑے ہوئے ہوں گے۔