اسلام آباد/کراچی (13 جنوری 2024)
پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی الیکشن مانیٹرنگ سیل کے انچارج تاج حیدر نے کہا ہے کہ چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی کا دس نکاتی پروگرام قابل عمل ہے۔بات بیماری، ناخواندگی، بیروزگاری اور بھوک کے خاتمے پر زیادہ سے زیادیہ ریاست وسائل کو سمجھداری سے خرچ کرنے کی ہے۔ اس کے علاوہ اچھی حکمرانی قائم نہیں ہوسکتی۔ سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ سبسڈی اور اضافی غیرآئینی وفاقی وزارتوں میں سالانہ خرچ ہونے والے تقریباًدو ٹریلین روپوﺅں کی رقم کو دس نکاتی پروگرام کے ذریعے فلاح و بہبود کی طرف موڑ دیا جا رہا ہے۔ اشرافیہ کی جیبوں میں جانے کی بجائے یہ رقم عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ ہوگی۔ سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ پانچ سالوں میں حقیقی اجرت کو دوگنا کرنے سے غریبوں کی قوت خرید میں اضافہ ہوتا ہے اور پیسہ گردش میں آتا ہے۔ سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ بڑھتی ہوئی طلب اور قومی پیداوار جس کے بغیر کوئی اقتصادی ترقی نہیں ہو سکتی۔ انہوں نے کہا کہ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت پبلک سیکٹر میں سرمایہ کاری میں اضافہ جیسا کہ عوام حکومت نے قدرتی اور انسانی مسائل کو متحرک کرنے کے لئے تھر کول میں کیا۔ صحت اور تعلیم کے شعبوں میں بھی عظیم کامیابیاں حاصل کی ہیں جو پورے ملک میں منتقل ہو سکتی ہیں۔ سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ جے پی این سی، ایس یو آئی ٹی اور این آئی سی وی ڈی میں مریضوں کا مفت علاج۔ گمپٹ انسٹی ٹیوٹ آف لیور اور دیگر اعضاءکی پیوندکاری اور سندھ کے بہت سے دوسرے پبلک سیکٹر ہسپتال نہ صرف پورے پاکستان بلکہ بیرون ممالک سے تعلق رکھنے والے مریضوں کو بھی اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ صرف این آئی سی وی ڈی نے پچھلے پانچ سالوں میں 3 لاکھ 68 ہزار سے زیادہ مریضوں کا علاج کیا جن کا تعلق دوسرے صوبوں سے تھا۔ سینیٹر تاج حیدر نے سوال کیا کہ مریض اپنی بیمار حالت میں سفر میں کرنے کی بجائے اپنے اضلاع میں سندھ کی طرح طبی علاج کے مستحق نہیں ہیں؟ انہوں نے کہا کہ سیلاب سندھ میں سکولوں کی نصف عمارتوں کو بہا لے گیا اور ہم ان کی تعمیر نو کر رہے ہیں۔ اس کے باوجود اعلیٰ تعلیم کے لئے مختص رقم پورے پاکستان میں پہلی پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ایچ ای سی کی کل مختص رقم کے بہت قریب پہنچ گئی ہے۔ سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ پری پرائمری سے لے کر اعلیٰ ترین سطح پر مفت تعلیم ایک ایسی ترجیح ہونی چاہیے کہ جس سے پاکستان آگے بڑھ سکے۔ سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ ہمارے پاس وسائل ہیں۔ ہماری ترجیحات کو اشرافیہ نے غلط جگہ استعمال کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بی آئی ایس پی، کسان کارڈ، مزدور کارڈ، یوتھ کارڈکی توسیع بھی بہت ضروری ہے۔ سینیٹر تاج حیدر نے سوال کیا کہ سندھ میں عوامی حکومت کی جانب سے جمع کردہ خدمات پر سیلز ٹیکس 14سالوں میں چھ ارب سے بڑھ کر 230ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔ اس عرصے کے دوران ٹیکس کی شرح 17فیصد سے کم ہو کر دس فیصد رہ گئی ہے۔