چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے شہید ذوالفقار علی بھٹو قتل کیس کے سلسلے میں صدارتی ریفرنس پر سماعت میں شرکت کی جس کے بعد سپریم کورٹ کے احاطے میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے چیئرمین پی پی پی نے کہا کہ شہید محترمہ بینظیر بھٹو اپنے والد شہید ذوالفقار علی بھٹو کے لئے انصاف مانگ رہی تھیں۔ وہ انصاف انہیں تو نہیں ملا لیکن اب ان کا نواسہ اس انصاف کا طلبگار ہے۔ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پاکستان پر تقریباً آدھے عرصے تک ڈکٹیٹرشپ مسلط رہی ہے اور اب عدلیہ پارلیمنٹ کا آگے بڑھنا اس کیس سے منسلک ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ آئین کے بانی اور سپریم کورٹ کی اس عمارت اور پارلیمنٹ کی عمارت کی بنیاد رکھنے والے کو انصاف ملے گا۔ کسی قتل کے لئے کوئی معیاد نہیں ہوتی کہ اس کا کیس کب کیا جائے۔ معزز جج صاحبان اس ریفرنس کے ذریعے یہ فیصلہ کریں گے کہ ڈیکٹیٹرشپ کے دوران شہید ذوالفقار علی بھٹو کو انصاف ملا تھا یا نہیں ملا تھا اور اس طرح سے عدلیہ کے پاس یہ موقع ہے کہ وہ اپنے اوپر لگا ہوا دھبہ صاف کر سکیں۔ چیف جسٹس نے بھی آج یہ کہا ہے کہ یہ موقع ہے کہ دیگر اداروں پر لگے ہوئے دھبے بھی دھل سکیں۔ ہم اس بات کا تعین کر سکتے ہیں کہ جو کچھ ماضی میں ہوا وہ غلط تھا اور مستقبل کی طرف دیکھ سکتے ہیں کہ ایسے بھیانک جرم سرزد نہ ہوں۔ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ یہ شہید بینظیر بھٹو کا خواب تھا کہ ان کے والد کو انصاف فراہم کیا جائے اور ہم صدر زرداری کے یہ ریفرنس بھیجنے کے شکرگزار ہیں کیونکہ یہ موقع ملا ہے کہ شہید ذوالفقار علی بھٹو کو انصاف مہیا کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ وہ جج حضرات کی دانشمندانہ خصوصیات سے بہت متاثر ہوئے ہیں۔ وہ اس کیس کو نہ صرف قانون کے مطابق دیکھ رہے ہیں بلکہ تاریخ اور حقائق بھی انہیں یاد ہیں۔ انہیں اس بات پر خوشی بھی ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کی پہلی جج بھی اس کیس کی سماعت کرنے والے بنچ میں شامل ہیں۔ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ تاریخ بڑے خوبصورت انداز میں آگے بڑھتی ہے۔ صحافیوں کے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ یہ ریفرنس نہ صرف ازالہ ہے بلکہ اس کے علاوہ بھی دیگر مواقع میسر ہیں کیونکہ قتل کیس میں کوئی معیاد کی قید نہیں ہوتی اس لئے متاثرہ خاندان اس کیس کی سازش کرنے والے کرداروں کے خلاف ایف آئی آر درج کر اسکتا ہے اس کے بعد عدلیہ کے لئے شہید ذوالفقار علی بھٹو کے کیس کو سننا ناگزیر ہو جائے گا۔ ہم امید کرتے ہیں کہ اس صدارتی ریفرنس کے ذریعے ہمیں تاریخ کو درست کرنے کا موقع ملے گا کہ ہم اپنے اداروں پر کوئی دھبہ نہیں دیکھنا چاہتے۔ دیگر قانونی طریقہ کار بھی ایف آئی آردرج کرا کر اختیار کئے جا سکتے ہیں۔ ایک اور سوال کا جواب دیتے ہوئے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ وہ اس کیس کی سماعت کے لئے بے صبری نہیں کر رہے۔ صحافیوں کو چاہیے کہ وہ ان کے خلاف الزامات لگانے سے قبل شواہد پیش کریں۔ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ملک کے عوام سیاسی طور پر بہت باشعور ہیں کیونکہ انہوں نے کسی ایک پارٹی کو مینڈیٹ نہیں دیا جس سے وہ یہ پیغام دے رہے ہیں کہ وہ نہیں چاہتے کہ کوئی ایک پارٹی اکیلی چیلنجوں کا مقابلہ کریں۔ عوام کہہ رہے ہیں کہ سیاسی پارٹیوں کو متحد ہونا چاہیے اور سیاسی طور پر یہ بات کمپورمائز کہلاتی ہے۔ سیاسی اتحادوں میں کچھ لو اور کچھ دو ہوتا ہے۔ پاکستان کے عوام نے اپنا یہ فیصلہ سنا دیا ہے اور اب سیاسی پارٹیوں کو ساتھ مل کر مل کو مشکلات سے نکالنا ہے اور وفاق، جمہوریت اور پارلیمانی نظام کو بچانا ہے۔ ایسا کرنے کے لئے صرف مذاکرات اور کمپورومائز کی ضرورت ہے۔ جتنا جلدی حکومت سازی کا عمل مکمل ہو جائے کیونکہ اس میں تاخیر پرسوالات اٹھ رہے ہیںاور یہ تاخیر پی ایم ایل(ن) کی غیرسنجیدگی کی وجہ سے ہو رہی ہے۔ تیکنیکی طور پر پی ٹی آئی سب سے بڑی پارٹی ہے لیکن وہ کسی سے بات نہیں کرنا چاہتی۔ اس کے بعد پی ایم ایل(ن) دوسری پارٹی ہے اور جب وہ پیپلزپارٹی کے پاس آئی تو پیپلزپارٹی نے ان کی حمایت کرنے کا فیصلہ کیا۔ ہم پی ایم ایل(ن) کو اپنی شرائط پر ووٹ دیں گے نہ کہ ن لیگ کی شرائط پر۔ حکومت سازی میں تاخیر دراصل ملک کا نقصان ہیے۔ پاکستان پیپلزپارٹی اپنے نظریے اور موقف ہر کھڑی ہے اور اگر دوسری پارٹی اپنا موقف تبدیل نہیں کرنا چاہتی تو ایک خطرناک ڈیڈ لاگ پیدا ہو جائے گا جو پاکستان کی جمہوریت، معیشت، وفاق اور سیاسی استحکام کے خلاف ہوگا۔