صدر ہیومن رائٹس سیل PPP سابق سینیٹر فرحت اللہ بابر نے آج اپنے ایک بیان میں وزارت داخلہ کی جانب سے ایک ماہ کے طویل تردید کے بعد سندھ ہائی کورٹ کے سامنے یہ اعتراف کہ اس نے انٹیلی جنس ایجنسیوں کے مشورے پر سوشل میڈیا پلیٹ فارم “X” کو بلاک کر دیا تھا۔ یہ حکومت کرنے کا ایک خطرناک طریقہ ہے جس میں سکیورٹی سے مغلوب اسٹیبلشمنٹ ایسے فیصلے لے رہی ہے جو احتساب سے بالاتر ہیں اور جن میں معیشت تعلیم اور جمہوری حقوق کا خیال نہیں رکھا جا رہا۔ اسی طرح پی ٹی اے کے سربراہ کی جانب سے عدالت کے سامنے یہ بیان کہ ان کی تنظیم ’کنفیوژن‘ کی شکا ر ہے اور یہ بیان زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔ اس بات میں کیا کنفیوژن ہو سکتی ہے جبکہ خود وزارت داخلہ نے یہ بات تسلیم کی ہے کہ 17فروری کو اس نے ” کو”X” کو معطل کرنے کا حکم دیا تھا۔ یہ معطلی اس وقت کی گئی جب راولپنڈی میں ایک سینئر بیوروکریٹ نے چیف الیکشن کمشنر ااور ایک اعلیٰ جج پر 8فروری کے انتخابات میں ہیر پھر کرنے کا الزم لگایا تھا۔ اس کے بعد اس بیوروکریٹ کی کوئی تفتیش نہیں ہوئی اور نہ اس کے خلاف کوئی مقدمہ بنا۔ دوسری بات یہ کہ “X” کو روکنے کی ذمہ داری کسی نے قبول نہیں کی اور پی ٹی اے ازخود اس کو بحال کرنے کے قابل بھی نہیں۔ اس سلسلے میں سندھ ہائی کورٹ متعدد بار حکم دے چکی ہے لیکن “X” کو بحال نہیں کیا گیا۔ پی ٹی اے کے سربراہ اس وجہ سے عدالت کی حکم عدولی کر رہے جو پہلے کسی اور ادارے میں ملازمت کر چکے ہیں۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے یہ بات تسلیم کی ہے کہ اس بندش کے متعلق کوئی نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا گیا ہے اور اگر عطااللہ تارڑ کو ایسا کوئی نوٹیفکیشن نہیں ملا تو حکومت نے اس بندش کی تحقیقات کیوں نہیں کیں۔ “کنفیوژڈ” پی ٹی اے مستقل اس بات کو جھٹلاتا رہاہے کہ ایسی کوئی بندش نہیں۔ پی ٹی اے میں محکمہ جاتی تبدیلیوں کی بڑے پیمانے پر ضرورت ہے اور سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکٹ کو فوری طور پر بحال کیا جانا چاہیے۔