صدر ہیومن رائٹس سیل پاکستان پیپلزپارٹی سابق سینیٹر فرحت اللہ بابر نے مندرجہ ذیل بیان جاری کیا ہے۔میڈیا میں تسلسل سے یہ تجویز آرہی ہے کہ نیشنل فنانس کمیشن (NFC) میں صوبوں کا حصہ کم کر دیا تھا لیکن وزارت خزانہ اس پر مکمل خاموش ہے جبکہ ضرورت اس بات کی تھی کہ صوبوں میں پیدا کی گئی بدگمانیاں ختم کرنے کے لئے اس کا سخت جواب دیا جاتا۔ این ایف ایس ایوارڈ رول بیک کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آئین میں اٹھارہویں ترمیم اور صوبائی خودمختاری کو رول بیک کر دیا جائے جو کہ غیر جمہوری عناصر اور مرکز مائل قوتوں کا خواب رہا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ واضح طور پر یہ بیان جاری کرے کہ صوبائی مختاری پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ مرکز مائل قوتیں یہ الزام لگاتی ہیں کہ صوبے ایسے اخراجات کرتے ہیں جو پیسے ضائع کر دینے کے مترادف ہیں اور وفاق کی تنخواہوں کے بل چارگنا زیادہ بڑھ گئے ہیں لیکن وفاق خود اپنے غیر معقول اخراجات پر آنکھیں بند کئے ہوئے ہے۔ وفاقی حکومت کے پنشن اور ریٹائرمنٹ کے الاﺅنس 2011ءسے سات گنا بڑھ چکے ہیں۔ اس وقت فوج کی پنشن کی مد میں 563 ارب اور سویلین افراد کی پنشن کی مد میں 188ارب خرچ ہو رہے ہیں جوکہ گذشتہ 12سال میں وفاقی حکومت کے ذمے واجب الادا ہوتے ہیں۔ اسی عرصے میں وفاقی حکومت کی انتظامیہ اور قانون ساز اداروں کے اخراجات آٹھ گنا بڑھ چکے ہیں۔ یہ کہنا کہ این ایف سی ایوارڈ وفاقی حکومت کی مالی مشکلات کی وجہ ہیںسراسر غلط بات ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ وفاقی حکومت اپنی ٹیکس پالیسیوں میں کوئی اصلاحات نہیں لائی اور وہ وزارتیں بھی وفاقی حکومت کے پاس ہیں جو اٹھارہویں ترمیم کے بعد صوبوں کو دی جا چکی ہیں۔ وفاقی حکومت کی جانب سے ان وزارتوں کو چلانے کی ضد غلط ہے۔ وفاقی حکومت دفاعی اخراجات کو کم کرنے اور خاص کر غیرجنگی اخراجات کو کم کرنے میں ناکام ہوگئی ہے۔ اس کے علاوہ وفاقی حکومت کی جانب سے اشرافیہ کو بھی کثیر فنڈ منتقل کئے جاتے ہیں۔ مرکز مائل قوتوں کو اقوام متحدہ کی اس رپورٹ کو دیکھنا چاہیے جس کے مطابق اقتدار میں رہنے والی اشرافیہ پر سالانہ 17ارب ڈالر خرچ ہوتا ہے جوکہ ملک کی مکمل معیشت کا 6فیصد ہے۔ وفاقی کو چاہیے کہ وہ اپنا گھر ٹھیک کرے بجائے اس کے کہ صوبوں کو حقوق سے محروم کیا جائے۔