پاکستان کے وزیر خارجہ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بدھ کو قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انتخابات سے متعلق آئین میں 90 دن اور بعض صورتوں میں 60 دن کی شرط کی خلاف ورزی ہم نے نہیں کی بلکہ کسی اور نے کی۔ اس کی شروعات پی ٹی آئی کے اراکین اسمبلی کے استعفے دینے کے ساتھ ہوئی۔  کیونکہ ان نشستوں پر وہی 60 دن کی ڈیڈ لائن لاگو ہوتی ہے۔ بلدیاتی انتخابات بھی آئین اور قانون کے مطابق ہوتے ہیں۔ پی ٹی آئی کے دور میں عدالتی احکامات کے باوجود بلدیاتی انتخابات نہیں کرائے گئے۔ عدالت کے اقلیتی فیصلے میں بھی 90 دن کی حد کا اطلاق خیبرپختونخوا پر نہیں کیا جا رہا۔ یہ حد کے پی کے انتخابات کے لیے بڑھا دی گئی ہے۔ میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ پاکستان پیپلز پارٹی کبھی بھی آئین سے تجاوز نہیں کرے گی۔ تاہم ایسا نہیں ہو سکتا کہ پارلیمنٹ کو کمزور کرنے کے احکامات دیے جائیں۔ اگر ہماری معزز عدلیہ کو آئین کی تشریح کے دوران مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو پیپلز پارٹی ایک سیاسی جماعت کے طور پر جس نے نہ صرف 1973 کے آئین کا مسودہ تیار کیا بلکہ اسے بحال کیا۔ اگر ہماری عدلیہ کو آئین کی تشریح کرنے میں مشکل پیش آرہی ہے تو پی پی پی ایک ایسی سیاسی جماعت کے طور پر جس نے نہ صرف 1973  کا آئین دیا بلکہ اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے آئین کو اصل حیثیت میں بحال کیا سپریم کورٹ کی مدد کرنے کے لئے تیار ہیں۔ ہم نے آئین بنایا تاکہ ہر ادارہ بشمول پارلیمان جو کہ تمام اداروں کی ماں ہے کی عزت کی جائے۔  اس وقت پارلیمنٹ کا مذاق اڑایا جا رہا ہے اور بے عزتی کی جا رہی ہے۔ ہمارے وزیر قانون اور اٹارنی جنرل آج عزت مآب عدلیہ کے فیصلے کی وضاحت کر رہے تھے اور میں یہ جان کر حیران  ہو گیا کہ ایک ادارہ جو آئین کے تحفظ کا ذمہ دار ہے وہ منی بل اور دیگر معاملات میں پارلیمنٹ کو نظر انداز کرنے کا اشارہ دے رہا ہے۔ ہم نے نہ ماضی میں آئین کو منسوخ کیا اور نہ ہی آئندہ کریں گے۔ یہ نہ صرف ہماری جمہوریت اور آئین بلکہ پوری دنیا کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے۔ پارلیمنٹ قومی رائے کی نگہبان ہے۔ ہم فیصلہ کریں گے کہ عوام کا پیسہ کہاں اور کیسے خرچ ہوگا۔ یہ صرف اس ادارے کا اختیار ہے کہ وہ فیصلہ کرے کہ پیسہ کہاں خرچ کرنا ہے اور ہم کسی اور کی ہدایات پر عمل کرنے کے ذمہ دار نہیں ہیں۔ پیپلز پارٹی کل بھی پارلیمنٹ کے ساتھ کھڑی تھی، آئندہ بھی کھڑی رہے گی۔ ایگزیکٹو قومی اسمبلی کے احکامات پر عمل کرنے کا پابند ہے۔ اگر عدلیہ اس ایوان [قومی اسمبلی] کی تضحیک کر رہی ہے اور اسے کمزور کر رہی ہے، اگر یہ اس بات پر زور دے رہی ہے کہ ہم کوئی غیر آئینی قدم اٹھا رہے ہیں، تو پیپلز پارٹی کی نظر میں یہ پارلیمنٹ کی توہین ہے۔ یہ استحقاق کی خلاف ورزی ہے۔ کوئی ادارہ یہ کیسے اپنے اوپر لے سکتا ہے کہ وہ ہمیں آئین کو منسوخ کرنے اور پارلیمنٹ کی بات نہ سننے کا حکم دے؟ چیئرمین بلاول بھٹو نے کہا کہ اسپیکر صاحب صرف چیف جسٹس اور دیگر ججوں کو خط لکھنے سے بات نہیں بنے گی۔ ایوان کا استحقاق پامال کیا جا رہا ہے۔ عدلیہ کے اس جارحانہ حکم کو استحقاق کمیٹی میں اٹھایا جانا چاہیے۔ جمہوریت کا اصل تصور یہ ہے کہ وزیر اعظم ہمارے سامنے یعنی منتخب نمائندوں کے سامنے  جوابدہ ہے۔ جب وزیر اعظم کی تضحیق کی جاتی ہے تو یہ ایوان تضحیک بھی ہے۔ ہم نے عرصہ دراز سے یہ برداشت کیا ہے۔ کتنے وزرائے اعظم کو پھانسی پر چڑھایا جائے گا یا توہین کے الزامات کا سامنا کرنا پڑے گا؟ یہ ہم پر منحصر ہے کہ آئندہ کسی وزیر اعظم کو کمزور نہ ہونے دیں۔ ہم ججوں کا احترام کرتے ہیں، اور ہمیں وہی سلوک ملنا چاہیے۔ یہ قطعی طور پر ناقابل قبول ہے کہ کوئی جج خفیہ کالز کے ذریعے موصول ہونے والی ڈکٹیشن کے مطابق ملک کے مستقبل سے کھیلتا ہے۔ جب ہم نے قومی اسمبلی میں قرارداد منظور کی تو ہم وزیراعظم پر اعتماد کا اعادہ کر رہے تھے۔ وزیراعظم پر اعتماد کا اظہار ہو یا منی بل، ہم 4-3  کےاکثریتی فیصلے کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اگر اعتماد کی کمی ہے تو وہ تین ججوں پر ہے۔اگر آرٹیکل 63 کو مدنظر رکھتے ہوئے اس موجودہ صورتحال پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ معاملہ کچھ اور ہے۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ اس الجھن سے صرف ہمارے لوگوں، جمہوریت اور وفاق کو خطرہ ہے۔ کیا یہ صورت حال ہے کہ پچھلے دروازے سے دوبارہ ون یونٹ پالیسی مسلط کرنے کی کوشش کی جارہی ہے؟ یہ نہ صرف میری ذاتی رائے ہے کہ جس اصرار کے ساتھ صرف ایک صوبے میں انتخابات کرانے کی کوشش کی جا رہی ہے اس سے ہمارا وفاق خطرے میں پڑ جائے گا۔ تمام سیاسی جماعتوں کا یہ موقف مائنس ون(پی ٹی آئی) ہے کہ ملک بھر میں انتخابات اپنے مقررہ وقت پر ایک ہی دن کرائے جائیں۔ اگر لوگ عدلیہ کی ’پنچایت‘ میں سیاسی مکالمے پر ڈٹے ہوئے ہیں، تو اس کے کامیاب عمل ہونے کا امکان کم ہے چاہے ہم اپنے اتحادیوں کو راضی کر لیں۔ تمام اداروں کے سربراہان کو اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ آیا وہ مستقبل میں ٹائیگر فورس کے ارکان کے طور پر یاد رہنا چاہتے ہیں یا غیر جانبدار افراد کے طور پر۔  اگر یہ تاریخ میں  غیرجانبدار رہنا چاہتے ہیں تو انہیں خود اپنے اندر مذاکرات کرنا چاہیے اور اتفاق رائے پیدا کرنا چاہیے۔  چیئرمین بلاول نے کہا کہ اگر کوئی مخصوص جج یا ہمارا صدر بھی متعصبانہ سیاسی کردار ادا کرنے پر اصرار کرتا ہے تو ہمیں موجودہ سیاسی بحران سے نکلنا مشکل ہو جائے گا اور تاریخ انہیں اسی طرح یاد رکھے گی جس طرح ان کے پیشروو صدور اور چیف جسٹسوں کو یاد کرتی ہے۔