” اگر لڑتے ہوئے ہم قانون نافذ کرنے والے اداروں کو زیادہ سے زیادہ اختیارات دینے کی کوشش میں جھکتے رہیں تو اس کا مطلب آئین پرستی اور قانون کی حکمرانی کا خاتمہ ہے۔” یہ بات پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے آج پارلیمنٹ ہاو ¿س میں بین الاقوامی آئینی کنونشن سے اپنے خطاب میں کہی۔ انہوں نے کہا کہ کچھ ہی عرصہ قبل اس پارلیمنٹ نے فوجی عدالتوں کے قیام پر اتفاق کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ صورتحال ایک پارلیمنٹ کے لیے کہیں زیادہ پیچیدہ اور مشکل ہو جاتی ہے اس خیال کے ساتھ کہ ریاست میں کچھ عناصر دراصل کچھ غیر ریاستی عناصر کی حمایت کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاپولزم پاکستان میں آئین پرستی کے لیے ایک نیا خطرہ ہے۔ پاپولسٹ لیڈر اقتدار میں آنے اور مقبول ہونے کے لیے جمہوری اور آئینی ذرائع استعمال کرتے ہیں۔ پھر وہ طاقت کا استعمال آئین اور جمہوری اداروں کو کمزور کرنے کے لیے کرتے ہیں جیسا کہ ہمارے ملک میں ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تقسیم کی گہری جڑیں پاکستان میں آئینی جمہوریت کے لیے ایک خطرہ ہے۔ جب مقدس ریاستی ادارے، میڈیا ہاو ¿سز، سیاسی جماعتیں، ٹریڈ یونینز اور سول سوسائٹی گہری تقسیم کا شکار ہو جائیں تو آئینی جمہوریت کے لیے خطرے کی گھنٹی بج جانی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ اس سے پہلے اسلام آباد یا راولپنڈی میں ریاستی ادارے اتنے پولرائزڈ اور منقسم نظر نہیں آئے تھے جتنے آج ہیں۔ فرحت اللہ بابر نے کہا کہ چند افراد اور ایک ادارے کے ہاتھ میں دولت اور معاشی طاقت کا ارتکاز سماجی اور سیاسی اور آئینی نظام کو خطرے میں ڈال دیتا ہے۔ آج سب سے بڑا صنعتی/تجارتی گروہ، سب سے بڑا رئیل اسٹیٹ انٹرپرائز اور سب سے بڑا ٹھیکیدار ان تنظیموں کے ہاتھ میں ہے جن کا تعلق ایک ریاستی ادارے سے ہے۔ انہوں نے کہا کہ معاشی وسائل کی بڑے پیمانے پر منتقلی جوکہ17 بلین ڈالر جوکہ غریب طبقات سے لے کر امیروں کو منتقل ہوتی ہے جس کی وجہ سے غربت کا سمندر پیدا ہوتا جو کہ آئینی جمہوریت کے لئے پائیدار نہیں ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ ٹیکنالوجی بھی نئے خطرات پیدا کر رہی ہے۔ اگرچہ ٹیکنالوجی کے ذریعے غلط معلومات اور جعلی خبروں کے پھیلاو ¿ کے بارے میں اکثر بات کی جاتی ہے لیکن ریاستی اداروں کی جانب سے آئینی جمہوریت کے خلاف جنگ کرنے والے جھوٹے بیانیے کو فروغ دینے والی جعلی خبروں پر کوئی بحث نہیں ہوتی۔ انہوں نے یاد دلایا کہ قومی اسمبلی نے حال ہی میں ایک متفقہ قرارداد منظور کی تھی جس میں یہ بھی اعلان کیا گیا تھا کہ وہ تمام لوگ جنہوں نے آئین کو منسوخ کیا اور اسے قانونی حیثیت دی ان کا نام” شرمندگی کے قومی ہال” میں رکھا جائے گا۔ انہوں نے آئین کو پامال کرنے کے خلاف مستقبل میں مہم جوئی کرنے والوں کو روکنے کے لیے اس قرارداد پر عمل درآمد پر زور دیا۔