چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی، وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے پارلیمنٹ ہاﺅس میں اپنے چیمبر کے باہر اخبار نویسوں سے گفتگو کرتے ہوئے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ جہاں تک پارٹیوں پر پابندیاں کے حوالے سے سوال ہے میں اصولی طور پر کسی سیاسی جماعت پر پابندی کی مخالفت تو کرتا ہوں مگر سیاسی جماعت کو بھی سیاسی جماعت رہنے کی خواہش رکھنی پڑے گی۔ انہوں نے کہا کہ اگر پی ٹی آئی میں پوٹینشل ہے کہ وہ سیاسی جماعت بنے میں سمجھتا ہوں کہ جو 9مئی کا ایکشن ہے تاریخ میں ایسا نہیں ہوا آج تک کور کمانڈراور جی ایچ کیو میں فوکس ہوتا ہے لیکن ہمارے ملٹری انسٹالیشن میں جس طریقے سے حملے ہوئے جب وہ تفصیل ہماری قوم کے سامنے آئے گی کہ کس طرح کوآرڈینیشن کے ساتھ ہماری ملٹری انسٹالیشن پر حملے کئے گئے میرے خیال میں کوئی پاکستانی ایسا نہیں کر سکتاکہ ہر پاکستانی کو چاہیے کہ قانون کی پابندی کریں۔ سیاسی جماعتیں پارلیمان میں ہوتی سیاسی جماعتی سیاست کرتی ہیں سیاسی جماعت پتھر لاٹھی بندوق ریاست کے خلاف استعمال نہیں کرتیں۔ چیئرمین پیپلزپارٹی نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ میرے خیال میں جب بھی لوگ ملٹری کورٹ کے بارے میں سنتے ہیں تو خود بخود ردعمل آتا ہے۔ دنیا میں ملک میں اور میڈیا میں ایک غلط فہمی ہے کہ شاید جس طریقے سے پاکستان میں ماضی میں آئین میں ترمیم کرکے ملٹری کورٹ قائم کئے تھے ایسے ہی 9 مئی کے دہشتگردوں کے خلاف کرنا چاہتے ہیں ایسی کوئی بات نہیں۔ ہم کوئی نیا ملٹری کورٹ قائم نہیں کرنا چاہتے اور نہ ہی آئین میں نئی ترمیم لے کر آرہے ہیں اور نہ ہی پاکستان کے قانون میں کوئی ترمیم لے کر آنا چاہ رہے ہیں۔ اور جو پاکستان کا قانون ہے اگر کسی نے قانونی خلاف ورزی کی ہے تو اس کے خلاف ایکشن تو ہونا چاہیے۔ جو آئین کے مطابق بغیر آئینی ترمیم کے آپ کو یاد ہوگا کہ اے پی ایس سانحہ کے بعد ایک ترمیم لے کر آئے اس کا جو قانون تھا ا سکی مدت ختم ہوگئی۔ کوئی غیر جمہوری اور غیر آئینی رویہ ہم پاکستان پیپلزپارٹی کبھی بھی اس کی حمایت نہیں کر سکتے بلکہ اس کی مخالفت کریں گے لیکن جہاں تک موجودہ قانون ہے اور آئین ہے اس کی خلاف ورزی کی جاتی ہے چاہے آرمی ایکٹ ہو چاہے وہ سیکرٹ ایکٹ ہو اور چاہے وہ دہشتگردی ایکٹ ہو، میں کسی کو بھی نہیں روک سکتا۔ ہر آدمی ایف آئی آر درج کرا سکتا ہے میں کسی کو نہیں روک سکتا۔ ایک سوال کے جواب میں بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ عمران خان وزیراعظم رہا ہے اور 70 سال کا سیاستدان ہے انہیں اس چیز کا خیال رکھنا چاہیے ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جب میاں صاحب کو اندازہ ہوا کہ پاکستان میں جمہوریت ہونی چاہیے اور ملک کو جمہوری طور پر چلنا چاہیے تو محترمہ بینظیر بھٹو نے ان کو اُن کے ساتھ بھی مصروف کیا۔ جہاں تک خان صاحب کا کردار غیرجمہوری ہوگا تو ہم سیاستدانوں کے لئے مسئلے بن جاتے ہیں ۔ آپ کو یاد ہوگا کہ میں 9مئی کے واقعے سے پہلے ڈائیلاگ کا سب سے زیادہ حامی تھا اور میرا فیصلہ تھا کہ پاکستان پیپلزپارٹی کی کمیٹی بنائیں گے سارے ہمارے اتحادیوں کو ایک کرکے ہم ان سے رابطہ کریں گے اور قائل کریں گے بڑی مشکل سے میں ہیلی کاپٹر لے کر کہاں کہاں پہنچاسب کو خود جا کر قائل کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ ہمیں ان سے بات چیت کرنی چاہیے ڈائیلاگ کرنا چاہیے اور وہ ڈائیلاگ اس چیز پر تھا کہ ایک دن ہی انتخابات ہوں اور وہ ڈائیلاگ کامیاب تھا۔ آپ کے سامنے اس حد تک یہ اعلان کیاکہ پورے ملک میں ایک ہی دن انتخابات ہوں۔ ڈائیلاگ میں ہمارے نمائندوں نے ہمیں قائل کرنا تھااور خان صاحب کے نمائندوں نے ان کو قائل کرنا تھا۔ خان صاحب نے اپنی زندگی میں کبھی بھی نہیں ایسا کوئی سیاسی فیصلہ لیا ہے یا جمہوری فیصلہ لیا ہے اس نے اس نے خود اپنے فیصلے کو سبوتاژ کیا اور ہمارے فیصلوں کو بھی سبوتاژ کیا۔یہ 2014ءمیں یہاں آیا تھا اس پارلیمنٹ پر حملہ کیا پی ٹی وی پر حملہ کیا مگر ہم نے اس کے ساتھ کچھ نہیں کیا۔ یہ اقتدار میں آیا تو اس کو ہٹانے کے لئے ہم عدم اعتماد لے کر آئے جو کہ جمہوری طریقہ تھا مگر ان کا غیرجمہوری رویہ تھا مگر بندیا ل نے یہ کہا کہ یہ غیرجمہوری اور غیرآئینی ایکشن ہے مگر میں نے اسمبلی میں کھڑے ہو کر کہا کہ جو آئین توڑتا ہے اس کے خلاف ایکشن لینا ہے۔ افسوس کے ساتھ کہہ رہا ہوں کہ انہوں نے کوئی ایکشن نہیں لیا۔ ایک سوال کے جواب میں بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ القادر ٹرسٹ کے متعلق میری کابینہ میں یہ سوال اٹھا مگر میں نے اس کی مخالفت کی اور کہا کہ ہم نے تو کام کرنا ہے، معیشت کو ٹھیک کرنا ہے، خارجہ پالیسی کو ٹھیک کرنا ہے۔ فارن فنڈنگ کے بارے میں ہمارے پاس ایک ثبوت تھا جو اکبر ایس بابرکیس لے کر آیا یہ فارن فنڈنگ ہے وفاقی حکومت کے پاس اختیار تھاکہ اس کو بین کریں لیکن ہم نے کہا کہ یہ روایات نہ ڈالیں بری مثال ہوگی ہم جمہوری لوگ ہیں آپ ایسے کرتے ہیں تو آگے جا کر کیا ہوگا؟ میں اب سمجھتا ہوں کہ میرے پاس کوئی ایسی جگہ نہیں رہی کوئی راستہ نہیں رہا کہ میں کسی طریقے سے 9مئی کے واقعے کے ایکشن کو نظرانداز نہیں کر سکتا اور جو قانون جب وہ وزیراعظم رہا لے کر آیا وہ اس آرمی ایکٹ میں ترمیم لے کر آیا اگر کچھ پسند نہیں تھا تو وہ ترمیم لا سکتا تھا وہ نہیں لے کر آیا۔ اب جو قانون ہے اس کا مقابلہ پی ٹی آئی کو کرنا ہوگا۔ بلاول بھٹو زرداری نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ جہا ں تک افغانستان کا سوال ہے وہاں ہمیں تشویش ہے سکیورٹی کے لحاظ سے ان کو ایڈریس کرنے کے لئے ان کو انگیج کر رہے ہیںاور ہمار ی ترجیح ہوگی کہ ان کے ساتھ مل کر ان کے مسئلے کے دہشتگردی کی تنظیموں کا مقابلہ کریں اگر ہمارے ریجن میں ان کے فائدے میں پاکستان کے فائدے میں کہ ہم سب اس ایشو کا مقابلہ کرنے کی کوشش کریں۔ انہوں نے کشمیر کے متعلق کہا کہ کشمیر ہمارا اہم مسئلہ ہے ۔ شہید محترمہ بینظیر بھٹو نے کشمیر کے سلسلے میں پورا پاکستان ایک پیچ پر ہے۔ جہاں تک او اائی سی کی بات ہے شہید بی بی کے دور میں کنٹریکٹ گروپ میں کشمیر کو یہ موقع ملا اور تب سے یہ کرتے آرہے ہیں کہ کنٹریکٹ گروپ میں بیٹھ کر کنٹریکٹ گروپ کی نمائندگی کریں۔ میں جب وزیر خارجہ بنا سا تھ ساتھ میں جب او آئی سی کا کونسلر فارن منسٹر کاچیئرمین بھی تھا تو مجھے بھی یہ موقع ملا کہ او آئی سی کے سی ایف ایم کی میٹنگ کی سربراہی کروں۔ اور اس میٹنگ میں میں نے انشور کیا کہ کشمیر کو آبزرور کے طور پر نہ صرف بٹھایا بلکہ ان کو تقریر کرنے کا موقع بھی ملا جو موجودہ صدر آزادکشمیر کا اس نے کشمیر کی نمائندگی بھی کی ہے۔