پاکستان پیپلزپارٹی کے انسانی حقوق سیل کے صدر سینیٹر فرحت اللہ بابر نے منگل کو اسلام آباد میں ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے ایک آن لائن اظہار رائے کی آزادی کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 8فروری کو انٹرنیٹ کی بندش نے عوام کو یہ یقین کرنے پر مجبور کر دیا کہ انتخابات میں گڑبڑ کی گئی جس سے ملک شدید سیاسی بحران کا شکار ہوگیا۔ اس سے قبل بھی انٹرنیٹ کو بند کیا جاتا رہا تاکہ حزب اختلاف کی ایک سیاسی جماعت اپنے ووٹرز سے رابطے نہ کر سکے اس کے نتیجے میں معاشی سرگرمیاں بینکنگ سیکٹر اور آن لائن طلباءکو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ فیک نیوز اور نام نہاد ففتھ جنریشن وار کا بہت ذکر کیا گیا تاکہ عوام کے جاننے کے حق پر پابندیوں کو جواز فراہم کیا جا سکے۔ فیک نیو ز ایک حقیقت ہے جس سے نمٹنا بہت ضروری ہے لیکن یہ تحقیقات بھی ضروری ہونی چاہئیں کہ ریاست کے کچھ عناصر بھی اس میں ملوث رہے ہیں جسے سپریم کورٹ نے مبہم حکمت عملی قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ بسااوقات فیک وکی لیکس بھی پلانٹ کی گئیں جن میں پاکستانی آرمی جنرلوں کو سراہا گیااور بھارتی جنرلوں کو ڈیمینائز کیا گیا لیکن یہ فراڈ بھی بیرونی اخبارات نے افشا کر دیا لیکن کچھ پتہ نہیں کہ یہ جعلی وکی لیکس کس نے پلانٹ کروائی تھی۔ اسی طرح اپریل 2019ءمیں فیس بک سے ایک سو سے زیادہ صفحات غائب کروا دئیے گئے جن کا تعلق ایک سرکاری ادارے کے ملازمین سے تھا۔ فیس بک نے کہا کہ ان لوگوں نے اپنی شناخت چھپانے کی بہت کوشش کی لیکن تحقیقات سے ان کے لنکس بے نقاب ہوگئے۔ اسی طرح حال ہی میں مختلف سیاستدانوں پراسرار آڈیو اور ویڈیوز لیک ہوئیں لیکن ان کا پتہ نہیں چلا کہ ان کے پیچھے کون ہیں۔ ایک حکومتی اہلکار نے عدالت کو بتایا کہ فون ہیک کرنا ایک عام سی ٹیکنالوجی ہے جس تک سب کی رسائی آسان ہے۔ ہمیں اس بات سے خبردار رہنا چاہیے کہ فیک نیوز کسی فرد کی جانب سے پلانٹ کی گئی ہے یا کہ خود ریاست کی جانب سے۔ بہت سارے صحافیوں اور سیاسی کارکنوں کو فیک نیوز کا بہانہ بنا کر انہیں پیکا قانون کے تحت ہراساں کیا گیا جیسا کہ اسد طور کے معاملے میں۔ اسی طرح بہت سے الزامات جیسا کہ انتخابی دھاندلی، سائفر کیس اور 9مئی کے واقعات کی بنیاد بھی انٹرنیٹ ہے۔ اس نئی قومی اسمبلی میں سیاسی لیڈروں نے شروع میں ہی کہا تھا کہ ان معاملات کی عدالتی تحقیقات کرائی جائیں گی تو اب پارلیمنٹ اپنے اس عزم پر عمل کرکے بھی دکھائے۔