پاکستان پیپلزپارٹی کے ہیومن رائٹس سیل کے صدر سینیٹر فرحت اللہ باب نے اسلام آباد میں معذور افراد سے متعلق ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ معذور افراد کے حقوق کے لئے سوائے صوبہ سندھ کے اور کسی صوبے یا وفاق نے قانون کے نفاذ کے لئے کوئی رولز نہیں بنائے۔ انہوں نے کہا کہ ایک سکیورٹی مائل ریاست میں عوام کے بنیادی حقوق پیچھے رہ جاتے ہیں اور بیوروکریسی بھی عوام کی فلاح کے قانون کے لئے اقدامات نہیں اٹھاتی۔ انہوں نے کہا معذوروں کو نظرانداز کر دینا معاشرے کا ایک طرز عمل ہے جو کہ کچھ عرصہ قبل پنجاب کے ایک صوبائی وزیر کے اس بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ معذور بچے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے والدین کی غلطیوں کی سزا ہے۔ معاشرے کا یہ غیرحساس رویہ پالیسی بنانے والوں کی توجہ معذور افراد کی فلاح کی طرف نہیں ہوتا اور کوئی ایسے وسائل مہیا نہیں کئے جاتے جن سے معذور افراد سیاسی اور معاشی طور پر بااختیار بن سکیں۔ یہ غیرحساس رویہ رکھنے والے یہ حقیقت جان لیں کہ کسی کو بھی معذوری کسی وقت بھی ہو سکتی ہے۔ حال ہی میں سینیٹ نے ایک معذور خاتون سینیٹر نے یہ شکایت کی کہ گذشتہ چھ سالوں کے دوران انہیں کبھی خواتین کی کے کاکس میں مدعو نہیں کیا گیا۔ ایئرپورٹس پر ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ اچھے بھلے صحتمند افراد ویل چیئر پر بیٹ جاتے ہیں تاکہ کہ قطار میں آگے بڑھ سکیں۔ فرحت اللہ بابر نے کہا کہ معذور افراد کے خاندان تو ان کی مدد کرتے ہیں لیکن معاشرہ اور ریاست کے بیانیے میں وہ شامل نہیں ہوتے۔ انہوں نے کہا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ خواتین کے سیاسی طور پر بے اختیار ہونے کی تعلیم وغیرہ کے لئے ڈیٹا اکٹھا کیا جائے تاکہ معذور لوگوں کو بین الاقوامی معاہدوں اور وعدوں کے مطابق سہولیات مہیا کی جا سکیں۔ پاکستان میں معذور افراد کو با اختیار بنانا اس لئے بھی ضروری ہے کہ یورپی ممالک میں ایکسپورٹ کے لئے جی ایس پی پلس سے فائدہ اٹھاتے رہنا پاکستان کی ضرورت ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ بریل کمپیوٹر کی ضروریات پوری کی جائیں اور معذوروں کے لئے ملازمت کے کوٹے پر عملدرآمد کیا جائے۔ انہوں نے تجویز دی کہ معذور خواتین کو بی آئی ایس پی پروگرام میں ازخود رجسٹر کیا جائے بجائے اس کے وہ ایک دفتر سے دوسرے دفتر چکر لگاتی رہیں۔ انہوں نے کہا کہ 35ملین افراد اپنے ضروری کام سرانجام دینے میں معذور ی کی وجہ مشکلات محسوس کرتے ہیں۔ انہیں معاشرے میں شامل کیا جائے تاکہ وہ پیداواری قوت بن سکیں۔