چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انگلش زبان کا ایک محاورہ کہ تاریخ اپنے آپ کو پہلے ایک سانحے کی حیثیت سے دہراتی ہے اور پھر یہ ڈھونگ بن جاتی ہے۔ پاکستان کا طویل اور مشکل جمہوری سفر اب ڈھونگ بن کر رہ گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ اپنے خاندان کی تیسری نسل سے ہیں جو منتخب نمائندگی کر رہے ہیں۔ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ قومی اسمبلی کی عمارت کا سنگ بنیاد شہید ذوالفقار علی بھٹو نے رکھا تھا اور قومی اسمبلی کا یہ ہال ہم سب کا ہے اور یہ ادارہ سارے اداروں کی ماں ہے۔ اس اسمبلی کے اراکین کو اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ اس ادارے کو مستحکم کرنے کا مطلب پاکستان کے عوام کو مستحکم کرنا ہے اور اس کو کمزور کرنے کا مطلب نہ صرف یہ کہ اپنے آپ کو ، وفاق کو اور پورے جمہوری نظام کو کمزور کرنا ہے۔ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ملک کے نوجوانوں کی نمائندگی کرتے ہوئے وہ اپنے ان بزرگوں سے کہتے ہیں جو کئی مرتبہ اس ایوان کے رکن منتخب ہو چکے ہیں کہ وہ ایسے فیصلے کریں جن سے آنے والی نسلوں کا مستقبل روش ہو۔ ہمیں ایسے فیصلے کرنے چاہئیں جن سے نوجوانوں کو اس ایوان میں آنے میں آسانی ہو اور ہمیں نوجوانوں پر تنقید نہیں کرنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ جس طرح سے یہاں اراکین نے احتجاج کی آڑ میں وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف کی تقاریر کے دوران شور شرابہ کیا وہ مایوس کن ہے۔ عوام ان کو دیکھ کر مایوس ہوئے ہوں گے جبکہ ان کی امیدیں ہم سے وابستہ ہیں۔ پاکستان کے عوام نے انتخابات میں ووٹ اس لئے ڈالے ہیں کہ وہ جن معاشی مشکلات کا شکار ہیں ان سے نجات پائیں۔ وزیراعظم نے اپنی تقریر میں اپنے منصوبوں کا ذکر کیا جبکہ قائد حزب اختلاف نے اپنے مسائل پر بات کی اور دونوں کی بات اس شور شرابے میں دب کر رہ گئی۔ قائد حزب اختلاف نے اعتراض کیا ہے کہ پی ٹی وی نے ان کی تقریر نہیں دکھائی۔ یہ انداز عمران خان نے شروع کیا تھا اسے جاری نہیں رہنا چاہیے اور تمام اراکین کی تقاریر دکھانی چاہیے۔ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پاکستان پیپلزپارٹی کے اراکین اسمبلی میں فارم 45 اور فارم 47 کے ذریعے نہیں آئے بلکہ کارکنوں کے خون اور پسینے کی محنت سے آئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ متعدد کارکن انتخابات میں شہید ہوئے جن میں شہید عبدالواحد اعوان، شہید صابر مگسی اور شہید عبدالرحمن نے شہادت پائی تاکہ ہم اس ایوان میں پہنچ سکیں۔ شہید عبدالرحمن 12سالہ لڑکا کراچی سے تھا اور اسے سر میں گولی مار کر شہید کیا گیا کیونکہ دشمن پیپلزپارٹی کے ووٹروں کو ڈرانا چاہتے تھے۔ مورو میں بلال زرداری کو شہید کیا گیا، نوشہروں فیروز منصور علی کو شہید کیا گیا اور میرپور خاص میں رضا کھوسو کو شہید کیا گیا۔ سانگھڑ میں عبدالمالک کو شہید کیاگیا۔ بلوچستان میں پارٹی کے امیدواروں کو گرنیڈ کے حملوں سے ڈرایا گیا اور تربت ظہور بلیدی پر دو مرتبہ گرنیڈ حملے ہوئے اسی طرح مندکے علاقے میں میر اصغر رند کو نشانہ بنایا گیا۔ علی مدد جتک کے دفتر پر کوئٹہ میں بم کا دھماکہ کیا گیا جس سے دو کارکن زخمی ہوئے۔ ہمارے امیدواروں پر مستونگ، خضدر اور کچھی میں بھی حملے ہوئے۔ پاکستان میں انتخابات میں ہمارے کارکن شہید ہوئے ان کی ہم شدید مذمت کرتے ہیں۔ گذشتہ اسمبلی میں میرے پہلے خطاب میں ہارون بلور اور سراج رئیسانی پر قاتلانہ حملو ں کی مذمت کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ انہیں اس بات پر فخر ہے کہ سراج رئیسانی کے صاحبزادے اس وقت قومی اسمبلی میں سب سے کم عمر رکن ہیں۔ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ہمیں ایک ایسا نظام بنانا پڑے گا کہ صرف انتخابات کے لئے ہمارے کارکن شہید نہ ہوں۔ اس ایوان کے رکن کی حیثیت سے میں ان شہداءکے خاندانوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ ان کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی۔ اس کے لئے ہمیں مل کر ایسے اقدامات اٹھانے ہوں گے اور ان خاندانوں کو مل کر یہ پیغام دینا پڑے گا۔ بلاول بھٹو زرداری نے وزیراعظم شہباز شریف ، قائد حزب اختلاف ، خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ امین گنڈاپور، پنجاب کی وزیراعلی مریم نواز شریف ، سند ھ کے وزیراعلی سید مراد علی شاہ اور بلوچستان کے وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی کو مبارکباد پیش کی۔ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ عوام ان کی طرف دیکھ رہے ہیں اور ان سب لوگوں کو ملک، جمہوریت، معیشت اور وفاق کو بچانے کے لئے کردار ادا کرنا پڑے گا۔ اگرحزب اختلاف نے کل وزیراعظم کی تقریر سنی ہے تو انہیں علم ہوگا کہ وزیراعظم بحرانوں کے حل کے لئے کوشش کر رہے ہیں۔ وزیراعظم نے قومی مفاہمت کے لئے چارٹر پیش کیا جس کی تجویز پارٹی نے بھی دی تھی۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے مخالفین بھی اس عمل میں شریک ہوں۔ ہم ملک کے مسائل حل کر سکتے ہیں جب ہم اس بات پر راضی ہو جائیں کہ ضابطہ اخلاق کیا ہوگا اور رولز آف دی گیمز کیا ہوں گے۔ کل چارٹر آف اکانومی کا بھی ذکر کیا گیا جو کہ انتہائی ضروری ہے۔ عوام نے کسی واحد سیاسی پارٹی کو فیصلے کرنے کا مینڈیٹ نہیں دیا۔ پاکستان کے عوام نے ایک ایسا فیصلہ کیا ہے جس نے پارٹیوں کو ایک دوسرے سے تعاون پر مجبور کر دیا ہے۔ اپوزیشن کو مخاطب کرتے ہوئے چیئرمین بلاول نے کہا کہ وہ بھی پیپلزپارٹی کے بغیر حکومت بنانے کے قابل نہیں تھے۔ پاکستان کے عوام نے پیغام دیا ہے کہ وہ سیاستدانوں کی لڑائی سے تنگ آگئے ہیں اور اب قومی مفاہمت اور معیشت کے چارٹر پر ایک دوسرے سے بات کرنا ہوگی۔ اگر اپوزیشن حقیقی معنوں میں عوام کی ترجمانی کرتی ہے تو اسے ادراک کرنا ہوگا کہ عوام افراط زر اور معاشی مشکلات سے تنگ آچکے ہیں۔ انہوں نے اپنے نمائندوں کو صرف مخالفین کو گالیاں دینے اور شور شرابہ کرنے کے لئے ووٹ نہیں دئیے تھے بلکہ انہوں نے اپنی معاشی مشکلات ختم کرنے کے لئے اپنے ووٹ کا استعمال کیا ہے۔ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پانچ سال قبل اشیائے خوردونوش کی جو قیمتیں تھیں اب وہ سینکڑوں گنا زیادہ ہو چکی ہیں۔ آج سے آٹھ نو سال پہلے جو خاندان 35 ہزار روپے میں گزارا کر لیتا تھا وہ اب 70 ہزار میں بھی نہیں کرسکتا۔ مہنگائی بڑھ گئی ہے لیکن لوگوں کی تنخواہیں نہیں بڑھیں۔ اب ہم ایک شدید ترین مالی بحران کا شکار ہو گئے ہیں جو بین الاقوامی سطح پر صورتحال اور اندرونی فیصلوں کی وجہ سے ہوا ہے۔ اگر اس ایوان کے تمام اسٹیک ہولڈرز مل کر کوئی معاشی پالیسی متعارف کراتے ہیں تو اس کی وجہ سے وزیراعظم بہتر فیصلے کر سکیں گے۔ اگر اپوزیشن یہ موقع گنوا دیتی ہے تو پھر اسے تنقید کرنے کا بھی کوئی حق نہیں رہے گا۔ ہم تمام اپوزیشن کو دعوت دے رہے ہیں کہ عوام کو معاشی مشکلات سے نکالنے کے لئے ساتھ دیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ تمام اراکین کو مشورہ دیتا ہوں کہ وہ ہم سے تعاون کریں، کم از کم معیشت کے لئے ہی یہ کیا جا سکتا ہے۔ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پاکستان پیپلزپارٹی نے اپنے منشور پر انتخابات میں حصہ لیا اور عمر ایوب کو اپنے منشور کا اتنا نہیں پتا ہوگا جتنا مجھے اپنے منشور کا علم ہے۔ مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہو رہی ہے کہ اب تمام پارٹیاں پیپلزپارٹی کے منشور کے 80فیصد نکات کی تائید کر رہی ہیں اور اس سلسلے میں پنجاب، وفاق اور دیگر صوبوں کے نمائندے بیانات بھی دے رہے ہیں اور پیپلزپارٹی کے نکات کو اٹھا رہے ہیں جو ایک اچھا شگون ہے۔ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وفاقی حکومت قرض پر چل رہی ہے کیونکہ صوبوں کو این ایف سی ایوارڈ دیا جا چکا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ این ایف سی ایوارڈ کے ذریعے صوبوں کو ان کا حق مل رہا ہے لیکن 2013 سے 2018ءتک نواز شریف اور ان کے بعد عمران خان کی حکومت نے اٹھارہویں ترمیم پر عملدرآمد نہیں کیا۔ وہ وزارتیں جنہیں 2015ءمیں صوبوں کے حوالے کرنا تھیں وہ اب تک وفاق میں بھی موجود ہیں جن کی وجہ سے ڈبلنگ ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ دارالخلافہ میں بیٹھے ہوئے بیورکریٹس حکومت کو یہ بتاتے ہیں کہ صوبوں کو دینے کے بعد وفاقی حکومت کے پاس کچھ نہیں بچتا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ 18 وزارتیں 2015ءسے وفاقی حکومت پر 308 ارب بوجھ ڈالتی ہیں۔ اگر ان وزارتوں کو صوبوں کے حوالے مکمل طور پر کر دیا جاتا تو پی آئی اے کے جو حالات دگرگوں ابھی ہیں انہیں اس رقم سے ختم کیا جاسکتا تھا۔ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ اس مرتبہ پیپلزپارٹی وزارتیں نہیں لے گی۔ اب وزیراعظم شہباز شریف کے لئے یہ موقع ہے کہ وہ ان وزارتوں کو صوبوں کے حوالے کرنے کا انقلابی قدم اٹھائیں۔ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ انہیں بہت خوشی ہوئی ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف نے کسانوں کو براہ راست سبسیڈی دینے کا اعلان کیا ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے دس نکاتی میں شامل ہے۔ وفاقی حکومت کھاد اور دیگر کمپنیوں کو سبسڈی دیتی ہے جس کی رقم 1500 ارب روپے بنتی ہے۔ ہم امیروں کے لئے فلاحی ریاست نہیں برداشت کر سکتے۔ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ صوبوں نے اپنے صوبائی ریونیو بورڈز بنائے ہیں جو بہت بہتر وصولی کر رہے ہیں اور وہ وفاقی حکومت سے زیادہ ٹیکس جمع کر رہے ہیں۔ صوبے ہر دفعہ بہتر کارکردگی دکھا رہے ہیں جبکہ ایف بی آر ہر مرتبہ ناکام ہو رہا ہے۔ اب تک ایف بی آر اشیا ءپر بھی ٹیکس جمع کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ حماد اظہر کو بھی یہ تجویز دے چکے تھے اور اس حکومت کو بھی دے رہے ہیں کہ اشیاءپر ٹیکس جمع کرنے کی ذمہ داری صوبوں کے حوالے کر دی جائے اور ایک ٹارگٹ بنا لے کہ اتنا ٹیکس جمع کیا جائے گا اور صوبے وہ ٹارگٹ نہ حاصل کر سکے تو صوبے اپنے وسائل سے ٹارگٹ پورا کرکے دینے کے پابند ہوں اور اگر ٹارگٹ سے زیادہ ٹیکس جمع کر لیں تو جو زیادہ ٹیکس جمع ہو وہ اسی صوبے کو دے دیا جائے۔ صوبائی ریونیو بورڈز وفاقی بورڈ سے زیادہ کارکردگی دکھائیں گے۔ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پاکستان کے عوام کو ہم سے یہ امید ہے کہ ہم ان کے مسائل حل کریں گے۔ یہ انتہائی ضروری ہے کہ ہم عدالتی اور انتخابی اصلاحات کریں۔ ہم چارٹرآف ڈیموکریسی کے بعد سے لے کر ابتک عدالتی اصلاحات نہیں کر سکے ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ سب ساتھ مل کر عدالتی اور انتخابی اصلاحات کے لئے کام کریں۔ اگر ہم یہ دونوں کر لیتے ہیں تو دنیا کی کوئی طاق پاکستان کی جمہوریت کو کمزور نہیں کر سکتی۔ جہاں تک انتخابات کا معاملہ ہے بہت سارے لوگوں کو یہ بات نہیں معلوم کہ پی پی پی کے کارکنان جمہوریت کی خاطر کتنی قربانیاں دیتے ہیں۔ جب بھی پیپلزپارٹی کسی بات پر اعتراض کرتی ہے تو اس پر تنقید کی جاتی ہے۔ ہم نے جب پہلے فارم 45 کی بات کی تھی تو ہمارا مذاق اڑایا گیا تھا۔ اب ہم چاہتے ہیں کہ یہ سارے مسائل حل ہو جائیں اور جب میں تیسری مرتبہ منتخب ہوکر اس ایوان میں آﺅں تو کوئی شور شرابہ نہ ہو جیسا کہ اب ہو رہا ہے۔ اس کے لئے پیپلزپارٹی وزیراعظم شہباز شریف اور اپوزیشن لیڈر عمر ایوب کو دعوت دیتی ہے کہ آئیں بیٹھیں اور انتخابات میں بے ضابطگیوں کا مسئلہ حل کر لیں۔ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اس بات کی سخت مذمت کی کہ شہید ذوالفقار علی بھٹو اور سائفر کے معاملے کا مقابلہ کیا جاتا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ عدالتی قتل کے کیس کے دوران عدالت ہی کے اندر شہید ذوالفقار علی بھٹو نے کہا تھا کہ ان کے سینے میں بہت سارے راز دفن ہیں جو وہ اپنی قبر میں لے کر جائیں گے اور پاکستان کی قومی سلامتی پر کبھی بھی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ انہوں نے بھی وزیرخارجہ کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیں ہیں اس لئے انہیں پتہ ہے کہ سائبر کیس میں کونسے معاملات ہیں۔ دفتر خارجہ سائفر کی کاپیاں مختلف اعلیٰ عہدیداروں کو بھیجتا ہے اور وہ ساری کاپیاں واپس جمع کرائی جاتی ہیں لیکن اس کیس میں جو کاپی وزیراعظم عمران خان کو بھیجی گئی تھی وہ واپس جمع نہیں کرائی گئی۔ عمران خان نے خود ایک ٹی وی پروگرام میں اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ وہ سائفر گم کر بیٹھے ہیں اور یہ سائفر قومی سلامتی کی دستاویز تھی اور یہ سائفر کوڈڈ شکل میں آتا ہے اور اس کا گم ہوجانا انتہائی خطرناک ہو سکتا ہے کیونکہ دشمن ہمارے دیگر سائفر بھی ڈی کوڈ کر سکتا ہے۔ عمران خان کی ایک ٹیپ بھی لیک ہوئی تھی جس میں وہ کہہ رہے تھے کہ آئیں اس سائفر پر کھیلتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی رہائشگاہ پر انٹیلی جنس ایجنسیوں نے دھاوا بول کر وہ اہم دستاویزات حاصل کر لی تھیں جو ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے پاس رکھ لی تھیں۔ اس معاملے پر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف ایک کیس بھی دائر ہو چکا ہے۔ یہ بھی ہوا ہے کہ عمران خان کی گرفتاری کے اگلے روز ہی وہ سائفر ایک بین الاقوامی ادارے نے شائع کر دیا۔ اگر حزب مخالف والے سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے عوام بیوقوف ہیں تو وہ غلطی پر ہیں۔ ہم سب کو یہ پتہ ہے کہ سائفر کی کاپی بین الاقوامی ادارے میں سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے لئے چھپوائی جائے تاکہ ان کے خلاف چلنے والے کرپشن کے مقدمات کو متنازعہ بنایا جا سکے۔ اس سائفر کی اشاعت سے پاکستان کی سکیورٹی کو داﺅ پر لگا دیا گیا۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ اس معاملے پر ہم نے قانون کے مطابق عمل کیا۔ ہم سب کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ ہم اپنے حلف کی پاسداری کریں گے۔ وہ لوگ جو آئین کی خلاف ورزی کرتے ہیں ان کو سزا دی جائے گی۔ آئین کی خلاف ورزی اس وقت کی گئی جب عدم اعتماد کی قرارداد کی تحریک کے وقت ایوان کو تحلیل کر دیا گیا تھا۔ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ انہیں حزب اختلاف والے آئین اور جمہوریت کا سبق نہیں دے سکتے۔ اور اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو میں ان سے یہ کہوں گا کہ تم مجھ سے بات کرنے والے کون ہوتے ہو؟ میں اس شخصیت کا نواسہ ہوں جس نے پھانسی کا پھندہ تو قبول کر لیا لیکن اپنے اصولوں پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا اور یہ جو لوگ آج احتجاج کر رہے ہیں انہوں نے حال ہی میں جمہوریت اور آئین کی بات کرنا شروع کی ہے۔ وہ آئین اور جمہوریت پر ہمیں لیکچر نہیں دے سکتے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ جھوٹے الزامات لگائیں گے اور انہیں ان کا جواب نہیں دیا جائے گا۔ ہم نہ صرف جواب دیں گے بلکہ ان کے جھوٹ کو بے نقاب بھی کریں گے۔ اگر حزب مخالف والوں کی کوئی جائز شکایت ہوگی تو ہم ان کی حمایت کریں گے لیکن اگر آئین اور جمہوریت کے خلاف کوئی قدم اٹھانے کی کوشش کریں گے تو ہم ان کے سامنے آہنی دیوار بن کر کھڑے ہوں گے۔ ان باتوں سے پاکستان کے عوام خوش نہیں ہو رہے۔ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ اگر وزیراعظم شہباز شریف کی حکومت حزب مخالف کے خلاف آئین اور جمہوریت کے برعکس کوئی قدم اٹھاتی ہے تو ہم حزب مخالف کا دفاع کریں گے تاہم اگر اپوزیشن کوئی غیرجمہوری اور غیرآئینی اقدامات اٹھاتی ہے تو پھر ہم ان کے سامنے دیوار بن کر کھڑے ہوں گے۔ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ کتنی ہی قراردادیں پاس کر لیں کہ جمہوری نظام میں کوئی مداخلت برداشت نہیں کریں گے تو ہم ایسا کرنے میں کامیاب نہیں ہوں گے جب تک کہ سیاستدان ایک دوسرے کی عزت نہ کریں اور اپنے آئینی دائرے میں رہ کر کام کریں۔ ہمیں یہ توقع نہیں رکھنی چاہیے کہ جب تک ہم اپنی عزت نہیں کریں گے اور اپنے دائرے میں نہیں رہیں گے تو دوسرے اداروں سے بھی اپنے آئینی دائرے میں رہ کر کام کرنے کی توقع نہیں کر سکتے۔ 9مئی کے واقعات پر بات کرتے ہوئے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ وہ خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کے اس مطالبے کی حمایت کرتے ہیں کہ 9مئی کے واقعات کی عدالتی تحقیقات کرائی جائیں لیکن اس کے لئے شرط یہ ہے کہ پی ٹی آئی ہمیں اس بات کی یقین دہانی کروائے کہ عدالتی کمیشن کے فیصلے کو سب تسلیم کریں گے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ اداروں پر اور شہداءکی یادگاروں پر حملوں کو قوم بھول جائے۔ انہوں نے کہا کہ جب تک اس مسئلے کو حل نہیں کیا جاتا ملک کی سیاست ترقی نہیں کر سکتی اس لئے پیپلزپارٹی وزیراعظم سے اپیل کرتی ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے کہیں کہ وہ 9مئی کے عدالتی کمیشن کی سربراہی کریں تاکہ 9مئی کے مجرمان کو سزا دی جا سکے۔ اپنے خطاب کے آخر میں چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے وزیراعظم شہباز شریف کے لئے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔