پاکستان کے سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز کے صدر آصف علی زرداری بدھ کو فیڈریشن آف چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز (ایف پی سی سی آئی) لاہور کے زیر اہتمام ایک تقریب کے مہمان خصوصی تھے۔ آصف علی زرداری نے اپنے خطاب میں کہا کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں وہ پہلے بھی آ چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تاجر برادری نے ماضی میں پیپلز پارٹی کی حکومت کی کارکردگی سب سے بہتر تھی۔ ہوسکتا ہے کہ یہ بہترین نہ ہو لیکن دوسری حکومتوں کے مقابلے میں پی پی پی کی حکومت کی کارکردگی ان سب سے بہتر تھی۔ یہ کافی نہیں تھا اور ہم اس سے بھی بہتر کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی برآمدات  دوہرے ہندسوں میں برآمدات ہونی چاہئیں اور اس کا مطلب 20 ارب نہیں بلکہ 200 ارب ہے۔ ہمارے پاس کسی چیز کی کمی نہیں ہے اور ہمیں غیر ملکی سرمایہ کاروں کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ہم خودسرمایہ کاری کر سکتے ہیں۔ پنجاب میں بڑے تاجر ہیں اور جب وہ سرمایہ کاری کریں گے ہم ان کی سرمایہ کاری کی ضمانت دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ انہیں مہاتیر محمد کا ایک جملہ یاد ہے جس نے کہا تھا کہ عوام کو امیر بنانے کے بعد ان پر ٹیکس لاگو کیا جائے۔  ان کا کہنا تھا کہ ہم پہلے ہی ٹیکسوں میں ڈوبے ہوئے لوگوں سے جوس نہیں نکال سکتے۔ یہ تاجر کب تک زندہ رہے گا۔ معیشت 5 سے 10 سال کی نہیں بلکہ آنے والی نسلوں کی ہے۔ اگر آپ کی ایکسپورٹ 250 یا 300 ارب ہے تو آپ بھول جائیں گے کہ کن کن سیکٹرز پر اخراجات ہیں۔ ہمارے تاجر کما نہیں رہے تو ٹیکس کیسے دیں گے۔ ہمیں اس ذہنیت سے اوپر اٹھنا ہوگا۔ سندھ میں جب بھی موقع ملتا ہے ہم اناج کی سپورٹ پرائس بڑھا دیتے ہیں۔ اس سے ہمارے کاشتکاروں کو ان کی جیب میں پیسے ملتے ہیں اور ہم بیرون ملک سے گندم خریدنے میں ڈالر بچاتے ہیں۔ جب میں سندھ میں اشیاءکی قیمتیں بڑھاتا ہوں تو پورے پاکستان میں بڑھ جاتی ہیں۔  وفاقی حکومتیں اسے پسند نہیں کرتیں اور ناراض ہوجاتی ہیں۔ ہمارے پاس اتنے ڈالر نہیں ہیں کہ گندم درآمد کر سکیں۔ صدر زرداری نے کہا کہ سندھ حکومت نے دریائے سندھ پر سات پل بنائے اور سب پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت بنائے گئے۔ سندھ پبلک پرایئویٹ پارٹنر شپ میں کام کر رہاہے۔ یہاں تک کہ سڑکیں بھی اسی پالیسی کے تحت بن رہی ہیں۔ تصور یہ ہے کہ سیاست دان پالیسیاں بناتے ہیں اور کاروبار عوام کرتے ہیں۔ میں نے پنجاب کی جیلوں میں آٹھ سال گزارے اس لیے میں کسی بھی جگہ سے زیادہ لاہوری ہوں۔ آئیے چارٹر آف اکانومی کے لیے بیٹھیں اور ایک دوسرے سے بات کریں۔ آئیے اگلی نسلوں کے لیے بیٹھیں۔ شاہراہ ریشم ہزاروں سال پرانا تجارتی راستہ ہے لیکن میرے ذہن میں گوادر پورٹ بنانے کا خیال آیا۔ اگر ہم گوادر پورٹ کو آپریشنل کر دیں تو چین 20 سے 25 ارب ڈالر بچاتا ہے اور گوادر سے تیل وسطی چین تک لاتا ہے۔ چین کے بندرگاہی شہر ترقی یافتہ ہیں مرکزی چین نہیں۔ وہیں موقع ہے کہ وسطی چین کی تعمیر اور 5 سے 6 بلین ڈالر کمانے کا۔ کراچی میں بسیں حکومت کی نہیں پرائیویٹ ٹرانسپورٹ کی ہیں۔ اگر وہ بسیں چلا رہے ہیں تو ظاہر ہے کہ وہ پیسہ کما رہے ہیں۔ دنیا کی ہر چیز پرائیویٹ سیکٹر نے بنائی ہے پبلک سیکٹر نہیں۔ عوامی ملکیت نوآبادیاتی خیال ہے۔ ڈیم زراعت کے شعبے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ ڈیموں سے نہیں بہتی نہروں سے بجلی پیدا کرنا چاہتا ہوں۔ نہر سے بجلی گاوں والوں کو دی جا سکتی ہے۔ ہمارے پاس سندھ میں گیس ہے۔ مجھے صنعتوں کو سستا ان پٹ فراہم کرنا ہے۔ تاجروں کا فرض ہے کہ وہ میری پالیسی کو برقرار رکھیں اور ان پر عمل کیا جائے۔ آصف علی زرداری نے کہا کہ موت ایک حقیقت ہے لیکن آپ جو کرتے ہیں اسے یاد رکھا جاتا ہے۔ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کو ان  کے کارناموں کے لیے یاد کیا جاتا ہے۔ مجھے بے نظیر کارڈ ، آئین میں 18ویں ترمیم صدارتی اختیارات پارلیمنٹ کو دینے کے لئے یاد رکھا جائے۔  اس دنیا میں کوئی طاقت نہیں چھوڑتا۔ کسی نے مجھے اپنی طاقت چھوڑنے کو نہیں کہا۔ میں تاریخ بنا رہا تھا۔ ہم نے اپنے بانی، ان کے بیٹوں کو کھو دیا، شہید بے نظیر بھٹو کو نہ آنے کی تنبیہ کی گئی لیکن وہ وطن واپس آئیں اور کہا کہ سوات میں پاکستانی پرچم لہرایا جائے گا۔ جب ہم اقتدار میں تھے تو مسلم ممالک نے جنگ کے حق میں ووٹ دیا تھا لیکن پاکستان نے حصہ نہیں لیا۔ میں نے انہیں بتایا کہ پاکستان میں چالیس لاکھ افغان مہاجرین ہیں اور میں جانتا ہوں کہ جنگوں میں کیا ہوتا ہے۔ ہمیں اجتماعی طور پر سوچنا ہو گا اور یہی کاروباری برادری کے لیے بھی ہے۔ میں آپ سے کہتا ہوں کہ میری پالیسیوں کے نفاذ کے لیے اپنی سوچ اور توانائی دیں۔