سابق سینیٹر اور پاکستان پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرینز ہیومن رائٹس سیل کے صدر فرحت اللہ بابر نے ہفتہ کے روز اے پی ایس کے شہداءکی یاد میں اسلام آباد میں ہونے والے مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 16دسمبر 2014ءکا یہ سانحہ ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ ددہشتگردوں سے آخری وقت تک لڑائی کی جائے اور انہیں رام کرنے کی کوششیں نہ کی جائیں۔ فرحت اللہ بابر نے کہا کہ ملک کی تاریخ میں 16دسمبر ایک سیاہ دن ہے جس روز پشاور شہر کے نہایت سکیورٹی والے علاقے میں معصوم طلباءکو شہید کیا گیا اور 16دسمبر ہی کے روز 1971ءمیں پاکستان دولخت ہوگیا اور اس سے پہلے ہم نے ڈھاکہ میں ہتھیار ڈالنے کے شرمناک سانحہ سے گزرنا پڑا۔ آج کے روز ہمیں اپنی غلطیاں تسلیم کرنے میں شرم سے کام نہیں لینا چاہیے۔ سانحہ اے پی ایس اور ملک میں دہشتگردی کے واقعہ میں حالیہ تیزی ہمیں یہ یادہانی کرات ہے کہ ریاست میں سکیورٹی اور خارجہ پالیسیاں ناکام ہو چکی ہیں اور غیر ریاستی عناصر ایک دفعہ پھر بلا خوف و خطر حملے کر رہے ہیں۔ وہ لوگ جو عسکریت پسندوں کو رام کر نا چاہتے ہیں اور ان سے امن کے لئے مذاکرات کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے قوم اور ملک کو بے انتہا نقصان پہنچایا ہے اور انہیں احتساب کی گرفت میں لانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ اے پی ایس سانحہ کے فوراً بعد تمام سیاسی پارٹیوں اور اداروں نے مل کر دہشتگردوں سے نمٹنے کے لئے نیشنل ایکشن پلان بنایا تھا لیکن اس پر عملدرآمد نہیں ہوا۔ کوئٹہ میں وکلاءکے ہونے والے قتل عام پر جو کمیشن بنایا گیا تھا اس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صاف طور پر کہا تھا کہ دہشتگردوں کے خلاف ایکشن لیا جائے لیکن اس کمیشن کی سفارشات پر کوئی عملدرآمد نہیں ہوا۔ سانحہ اے پی ایس کے متعلق معصوم بچوں کے سوگواران جو بنیادی سوالات بار بار پوچھ رہے ہیں ان کا بھی کوئی جواب نہیں دیا جا رہا۔ آج کے دن ہم یہ عہد کرتے ہیں کہ دہشتگرد صرف دہشتگرد ہوتا ہے اور ان میں اچھے برے کی کوئی تخصیص نہیں اور ان سب سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جا نا چاہیے نہ کہ راضی کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے۔