پاکستان پیپلزپارٹی ہیومن رائٹس سیل کے صدرسینیٹر فرحت اللہ بابر نے تربت بلوچستان سے آنے والے مظاہرے پر جو زبردستی غائب کئے جانے والوں کے خلاف مارچ کر رہے تھے پر پولیس کی جانب سے تشدد کی پرزور الفاظ میں مذمت کی ہے۔ اگر قانون نافذ کرنے والے ادارے یہ چاہتے تھے کہ وہ ان کی آواز کو کچل دیں گے تو اس میں قطعی طور پر ناکام ہوگئے ہیں۔ فرحت اللہ بابر نے آج پریس کلب کے سامنے اس احتجاجی مظاہرے کے لئے قائم کئے گئے کیمپ کا دورہ کیا اور دیکھا کہ یہ کیمپ اکھاڑ دئیے گئے ہیں اور چند خواتین اور مرد سہمے ہوئے ہیں۔ ان افراد کی دلجوئی کے لئے کوئی اہم حکومتی عہدیدار نہیں آیا جو کہ انتہائی افسردہ کن صورتحال ہے۔ اس مظاہرے میں شامل لوگ یہ توقع نہیں کر رہے تھے کہ ان کے گمشدہ عزیز بازیاب ہو جائیں گے اور یہ لوگ صرف چاہتے تھے کہ اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے ہوئے لوگوں تک ان کی آواز پہنچ جائے۔ ان لوگوں پر ریاستی ظلم مختلف ڈیجیٹل میڈیا پر دکھایا جا رہی ہے جبکہ مین اسٹریم میڈیا سے یہ خبر بالکل ہی غائب ہے۔ انہوں نے کہا کہ 9-11 کے بعد اداراتی طور پر لوگوں کوزبردستی اغوا کیا گیا جس کا اعتراف جنرل مشرف نے بھی اپنی یادداشتوں میں کیا ہے کہ سینکڑوں لوگوں کو کئی ملین ڈالروں کے عوض سی آئی اے کے حوالے کیا ہے۔ 2010ءمیں قانون کے ذریعے زبردستی غائب کئے جانے افراد کے لئے ایک کمیشن بنایا گیا لیکن وہ بری طرح ناکام ہوگیا کیونکہ نہ تو اس نے غائب کئے جانے والوں کی نشاندہی کی اور نہ ہی کسی کو سزا دلوا سکا۔ جس آسانی کے ساتھ یہ جرم ہو رہا ہے کہ وہ خوفزدہ کر دیتا ہے اور وفاق کی ساکھ کے لئے خطرہ ہے۔ ایک دہائی پہلے سپریم کورٹ نے دسمبر کے مہینے میں مالاکنڈ کے حراستی مرکز سے 35افراد کا مقدمہ پی ایل ڈی 2014ءمیں رپورٹ کیا جا چکا ہے۔ اس وقت سپریم کورٹ نے ان عناصر کی نشاندہی کی تھی جو ان واقعات میں ملوث تھے اور حکومت کو حکم دیا تھا کہ ان غائب شدہ افراد کی بازیابی کو سات دن میں یقینی بنایا جائے اور اس کی رپورٹ رجسٹرار سپریم کورٹ کے پاس جمع کرائی جائے۔ سپریم کورن نے یہ بھی ہدایت کی تھی کہ جو لوگ اس کے ذمہ دار ہیں ان سے قانون کے مطابق سختی سے نمٹا جائے۔ انہوں نے کہا کہ اس قسم کے واقعات 1970ءکی دہائی میں چلی میں ہونے والے واقعات کی یاددہانی کرواتے ہیں۔ چلی کے ڈکٹیٹر پینوشے کو آخر کار انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیا ۔ پاکستان میں غائب کئے جانے افراد صرف یہ چاہتے ہیں کہ غائب کئے جانے افراد نے اگر کوئی جرم کیا ہے تو ان کو سامنے لا کر ان پر قانون کے تحت مقدمات چلائیں جائیں۔ سینیٹر فرحت اللہ بابر نے حکام سے اپیل کی کہ متاثرہ خاندانوں کے زخموں پر مرہم رکھیں۔ اس سلسلے میں صرف چند لوگوں کی انا کی بجائے ہمدردی، انسانیت اور قانون کو مدنظر رکھا جائے۔